وبا کے دنوں میں سعودی خواتین ہراسانی کے قصے کیوں بتا رہی ہیں؟
سعودی عرب کی خواتین اس وقت سوشل میڈیا پر خود کو ہراساں کیے جانے کے واقعات شیئر کر رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب کہ سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا ہی سوشل میڈیا کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
اس وقت سعودی عرب کی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور خود کو ہراساں کیے جانے کے واقعات شیئر کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب خواتین کو بااختیار بنانے میں پاکستان و بھارت سے بھی آگے
سعودی عرب کی خواتین کی جانب سے خود کو ہراساں کیے جانے کے واقعات شیئر کیے جاتے وقت وائے ڈڈنٹ رپورٹ اٹ (اس کی رپورٹ کیوں نہیں کی؟) کے ہیش ٹیگ کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی خواتین ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے بتا رہی ہیں کہ وہ خود کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر خاموش کیوں رہیں اور وہ اس وقت اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی رپورٹ کیوں کر رہی ہیں۔
بیلا نامی ایک خاتون نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ان کی خواتین دوستوں نے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی جب نشاندہی کی تھی تو انہیں سزا دی گئی تھی، جس وجہ سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر خاموش رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں پہلی مرتبہ خواتین کو تاش کے مقابلوں میں شرکت کی اجازت
انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی مگر انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔
ٹوئٹر پر اوڈر نامی اکاؤنٹ استعمال کرنے والی ایک خاتون نے لکھا کہ ان کے والد نے ان پر تشدد کیا، انہیں گھر سے نکال دیا اور پولیس میں نافرمانی کرنے کی شکایت درج کروائی جس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
کچھ خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے لیے اس وقت بھی آواز اٹھانا کافی مشکل تھا جب انہیں ہراساں کرنے والا شخص ان کے خاندان کا ہی فرد ہو۔
کیٹولینا نامی صارف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’میں نے پولیس میں خود کو ہراساں کرنے کی شکایت درج کروائی تاہم بعدازاں پولیس مجھے ہی مجبور کرنے لگی کہ میں اس شخص پر لگائے الزامات واپس لے لوں‘۔
خیال رہے کہ سعودی حکومت نے خواتین کو پہلی بار مرد سرپرست کی اجازت سے بھی آزاد کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی ریسلنگ
2017 میں سعودی بادشاہ نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب خواتین کو کسی کام کے لیے باہر جانے سے قبل مرد سرپرست سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سعودی حکومت نے 2015 میں پہلی بار خواتین کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی دی تھی۔
گزشتہ سال نومبر میں سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی ریسلنگ بھی منعقد کی گئی تھی جبکہ رواں سال خواتین کو تاش کے مقابلوں میں شرکت کی اجازت بھی دی گئی۔
یاد رہے کہ 2018 میں سعودی عرب کی شوریٰ کونسل نے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف مجوزہ قانون بھی منظور کیا تھا۔