فلپائن: کورونا وائرس پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والا شہری پولیس کے ہاتھوں ہلاک
فلپائن میں کورونا وائرس چیک پوائنٹ کے قریب گاؤں کے حکام اور پولیس کو تیز دھار آلے سے دھمکانے والے شہری کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔
پولیس رپورٹ میں ہلاک ہونے والے 63 سالہ شہری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کو صوبہ اگوسن ڈیل نورٹے کے علاقے نسی پت میں گاؤں کی انتظامیہ اور پولیس کو دھمکانے والا شخص بظاہر نشے میں تھا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کا مشرق وسطیٰ کے تنازعات پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقامی عہدیدار نے ماسک نہ پہننے پر مذکورہ شخص کو تنبیہ کی جس پر وہ غصے میں آ گیا اور مغلظات بکتے ہوئے فصل کاٹنے والے تیز دھار آلے سے اس پر حملہ کردیا۔
اس موقع پر معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کرنے والے افسر نے صورتحال بے قابو ہونے پر 63سالہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
یہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے نافذ پابندیوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پولیس کی فائرنگ سے کسی شخص کی ہلاکت کا پہلا واقعہ ہے۔
یاد رہے کہ فلپائن کے صدر رودریگو دوترتے نے بدھ کو عوام سے اپنے خطاب میں خبردار کیا تھا کہ وہ پولیس اور فوج کو حکم دیں گے کہ وہ لاک ڈاؤن میں مشکلات پیدا کرنے والوں کو گولی مار دیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی ارب پتی شخص کا نیویارک کو وینٹی لیٹر و طبی آلات کا تحفہ
انہوں نے عوام سے کہا تھا کہ وہ اس مشکل وقت میں حکومتی احکامات پر عمل کریں، ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹروں کو نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ یہ ایک سنگین جرم ہے، میں پولیس اور فوج کو حکم دیتا ہوں کہ اگر کوئی بھی مشکلات پیدا کرے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو تو وہ اسے گولی مار کر ہلاک کردیں۔
فلپائن کے سب سے اہم جزیرے لوزون میں 16مارچ کے بعد سے ایک ماہ کا لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے اور شہریوں پر ضروری کاموں کے علاوہ گھرسے نکلنے پر پابندی عائد ہے۔
لوزون کے علاوپ بھی اکثر صوبوں نے پابندیوں کا اطلاق کیا ہوا ہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
فلپائن کے محکمہ صحت کے مطابق ملک میں مزید 76نئے کیسز کے بعد ملک میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 3ہزار 94ہو گئی ہے۔
مزید پڑھیں: عالمی وبا: 100 سال قبل جو غلطی ایشیا نے کی، اب مغربی ممالک کر رہے ہیں
ملک میں مزید 8افراد بھی ہلاک ہوئے جس سے مرنے والوں کی تعداد 144 ہو گئی ہے۔
فلپائن کے صدر نے دو روز قبل قوم سے خطاب میں دوبارہ محتاط رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم کو صورت حال سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بیماری سے کوئی بھی بیمار پڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کے بغیر یہ وائرس ختم نہیں ہو گا، لہٰذا اگر آپ پابندیوں پر عمل کرنا نہیں چاہیں گے تو میں آپ کو ختم کردوں گا تاکہ ان معصوموں کی زندگیوں کو بچا سکوں جو مرنا نہیں چاہتے۔
تاہم اس خطاب کے بعد دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں سخت گیر رہنما کورونا وائرس کو تنقید کو دبانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: یو اے ای نے امدادی پیکج میں اضافہ کرکے اسے 70 ارب ڈالر تک کردیا
ایمنسٹی نے کہا کہ یہ صحت کا بحران واقعی غیرمعمولی ہے لیکن صدر دوترتے آزادی اظہار رائے پر حملہ کرنے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جبکہ وہ بہتر سہولیات کی فراہمی کے عوامی مطالبے پر توجہ نہیں دے رہے جہاں اس وقت حکومت کی ترجیح صحت عامہ کی بہترین سہولیات کی فراہمی پر ہونی چاہیے۔
حکومت نے کورونا وائرس سے متاثرہ ملک کے غریب عوام میں 400ارب پیسو کی نقد رقم کی تقسیم کا اعلان کیا ہے لیکن عوام کی جانب سے امداد میں مستقل تعطل کی شکایات کی جا رہی ہیں۔