کورونا وائرس: اس سال حج ہوگا یا نہیں؟ لاکھوں مسلمان پریشان
دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اجتماعی عبادات کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں اور تقریباً تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اجتماعی عبادات کو عارضی طور پر معطل کردیا ہے۔
دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مسلمانوں کی اجتماعی عبادات کو بھی عارضی طور پر محدود کردیا گیا ہے، جہاں سعودی عرب نے کورونا وائرس کی وجہ سے عمرے کی ادائیگی پر عارضی پابندی لگا رکھی ہے۔
وہیں دنیا بھر میں اسلامی ممالک نے نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی عارضی طور پر جزوی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
لیکن دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان جلد ہی شروع ہونے والے فریضہ حج کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں، کیوں کہ تاحال سعودی عرب کی حکومت نے کسی بھی ملک کے ساتھ حج کا معاہدہ نہیں کیا۔
سعودی عرب کی حکومت ہر سال حج کا سیزن شروع ہونے سے قبل دنیا کے تمام ممالک سے حج انتظامات سے متعلق معاہدے کرتی ہے اور یہ معاہدے اسلامی مہینے ماہ رمضان سے ایک ماہ قبل ہی کردیے جاتے ہیں، مگر اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے مذکورہ معاہدے نہیں ہو سکے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ہی سعودی حکومت نے گزشتہ ماہ تمام ممالک کو فی الحال حج معاہدے نہ کرنے کی درخواست کی تھی، جس کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان پریشان ہیں کہ اس بار وہ فریضہ حج ادا کر سکیں گے یا نہیں؟
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: سعودی عرب نے عمرے پر عارضی پابندی لگادی
یہ وہ سوال ہے جو دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے ذہن میں اٹھ رہا ہے اور تقریباً دنیا بھر کے 25 لاکھ کے قریب افراد اس حوالے سے بہت پریشان ہیں، کیوں کہ تقریباً ہر سال 22 سے 25 لاکھ مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔
اس سال حج کی ادائیگی کی اجازت ہوگی یا نہیں، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، چوں کہ تاحال سعودی حکومت نے بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی اور ساتھ ہی سعودی عرب میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
عرب نشریاتی ادارے عرب نیوز کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے تمام ممالک کو حج معاہدے نہ کرنے کی درخواست کے بعد تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس سال مسلمانوں کو حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب آنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟
کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے جہاں سعودی عرب نے عمرے کو عارضی طور پر معطل کر رکھا ہے، وہیں ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہے جب کہ حکومت نے 4 سے 5 اپریل کو ملک کے متعدد علاقوں میں کرفیو بھی نافذ کردیا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر کورونا سے متعلق معاملات تاحال نازک ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اگر آئندہ چند ہفتوں میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پالیا گیا تو سعودی عرب کی حکومت فریضہ حج کی اجازت دے سکتی ہے، تاہم اگر معاملات پر قابو نہ پایا جا سکا تو بد قسمتی کے ساتھ اس سال لاکھوں مسلمان فریضہ حج ادا نہیں کر سکیں گے اور اگر ایسا ہوا تو ایسا پہلی بار نہیں ہوگا بلکہ اس سے قبل بھی ایسا ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی حکومت کی پاکستان سے حج معاہدے نہ کرنے کی درخواست
رپورٹ کے مطابق ماضی میں بھی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے کئی بار حج کو منسوخ کیا جا چکا ہے اور سب سے پہلے 930 ہجری میں حج کو ایک جنگی حملے کے بعد منسوخ کیے جانے کی تاریخ ملتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 930 ہجری میں خلافت عباسیہ کے دور میں ایک فرقے کی جانب سے حج کی ادائیگی کے دوران حاجیوں پر حملہ کرنے کے بعد حج کو آئندہ 10 سال تک منسوخ کردیا گیا تھا۔
اسی طرح تقریباً 38 سال بعد 968 میں بھی وبا کے پھوٹ پڑنے کی وجہ سے حج کو منسوخ کردیا گیا تھا جب کہ سال ایک ہزار سے لے کر 1030 تک کے درمیان بھی حج کی ادائیگی کے لیے محدود ممالک کے لوگ پہنچے تھے، کیوں اسی عرصے کے دوران متعدد ممالک میں قحط اور بیماریاں پھوٹ پڑی تھیں۔
اور تقریباً نصف صدی بعد 1099 اور 1100 کے آغاز میں ایک بار پھر فریضہ حج کی ادائیگی میں خلل پڑا، کیوں کہ اس وقت مسلمان ممالک میں جنگوں کا آغاز ہوا چکا تھا اور اسی وقت ہی صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً 200 سال تک رہا اور اس دوران کئی بار حج کو منسوخ کیا گیا۔
اگرچہ صلیبی جنگوں کے دوران مکمل طور پر حج کو منسوخ نہیں کیا گیا تھا، تاہم کشیدگی کی وجہ سے کئی مسلمان ممالک سے لوگ فریضے کی ادائیگی کے لیے نہیں جا سکے تھے۔
اسی طرح صلیبی جنگوں کے اختتام کے بعد بھی کشیدہ حالات، بیماریوں، قحط سالی اور جنگوں کی وجہ سے بھی بعض مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا یا پھر کئی ممالک سے عازمین فریضے کی ادائیگی کے لیے مقدس مقامات کی جانب رخ نہ کر سکے۔
عرب نیوز کی رپورٹ میں مصر کے مذہبی علما کا حوالہ بھی دیا گیا، جنہوں نے تاریخ اسلام کی روشنی میں بتایا کہ حکام کو سیاسی یا حفاظتی بنیادوں پر حج کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور ایسا غیر اسلامی نہیں ہوگا۔
مصر کے علما کے مطابق کورونا وائرس جیسی وبا سے بچنے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے اگر سعودی حکومت حج کو منسوخ کردیتی ہے تو غیر مذہبی نہیں ہوگا اور ایسے احکامات موجود ہیں جن میں انسانوں کو کہا گیا ہے کہ خود کو ہلاکتیں میں نہ ڈالیں۔
اسی حوالے سے عرب ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ سعودی عرب میں کورونا کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے وہاں کی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ممکنہ طور پر اس سال لاکھوں مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی نہیں کر سکیں گے تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
مڈل ایسٹ آئی کے مطابق اگر بدقسمتی سے اس سال فریضہ حج کی اجازت نہ دی گئی تو یہ مملکت سعودیہ کی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ مسلمان حج کی ادائیگی نہیں کر سکیں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر اس سال حج کی اجازت نہ دی گئی تو اگرچہ یہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا، تاہم اسلامی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار فریضہ حج کو منسوخ کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب کے 1930 میں قیام سے قبل جنگوں اور بیماریوں کی وجوہات کی بنا پر متعدد بار فریضہ حج کو منسوخ کیا گیا جب کہ متعدد بار مکمل طور حج پر پابندی عائد کرنے کے بجائے حج کے بعض رکن ادا کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔
عرب نیوز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ 865 عیسوی سال سے لے کر 1883 عیسوی تک کئی بار جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے فریضہ حج کو منسوخ کیا گیا۔
آخری بار حج کے کچھ ارکان کو بیماریوں اور وباؤں کی وجہ سے 1883 میں منسوخ کردیا گیا تھا، تاہم اس سال مکمل طور پر حج پر پابندی نہیں تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ 1883 کے بعد 1918 میں آنے والی خطرناک وبا اسپینش فلو کے دوران بھی فریضہ حج پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی، اس وبا سے دنیا بھر میں تقریباً 5 کروڑ انسان لقمہ اجل بنے تھے۔
اگر اس سال 2020 میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث سعودی حکومت فریضہ حج کی اجازت نہیں دیتی تو گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ لاکھوں مسلمان فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہوں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں