• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

کورونا پھیلانے کا خدشہ، لوگوں نے فائیو جی ٹاورز کو آگ لگادی

شائع April 5, 2020
برطانوی پولیس نے ٹاورز کو آگ لگانے کی تحقیقات شروع کردی—فوٹو: ڈیلی بیسٹ
برطانوی پولیس نے ٹاورز کو آگ لگانے کی تحقیقات شروع کردی—فوٹو: ڈیلی بیسٹ

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے جہاں اس سے بچاؤ کے لیے غلط معلومات پر مبنی علاج کے طریقے تیزی سے زیر گردش ہیں، وہیں اس وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے بھی کئی من گھڑت کہانیاں لوگوں کی پریشانی بڑھا رہی ہیں۔

برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ فائیو جی اور ریڈیو سگنل بھی کورونا وائرس کو پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔

ایسی افواہیں پھیلنے کے بعد برطانیہ کے متعدد شہروں میں لوگوں نے فائیو جی ٹاورز کو ہی آگ لگادی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سوشل میڈیا پر فائیو جی کے حوالے سے غلط افواہیں پھیلنے کے بعد مشتعل افراد نے مبینہ طور پر برطانیہ کے متعدد شہروں میں فائیو جی ٹاورز کو آگ لگادی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ تاحال فائیو جی ٹاورز کو آگ لگائے جانے کے واقعات سے متعلق اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ انہیں کس نے آگ لگائی تاہم یہ واقعات سوشل میڈیا پر افواہوں کے بعد سامنے آیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایگ برتھ، برمنگھم، لورپول اور میلنگ میں موجود فائیو جی ٹاورز کو آگ لگائی گئی اور ان ٹاورز کو آگ لگائے جانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئیں۔

رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر فائیو جی ٹاورز کو آگ لگائے جانے کی ویڈیوز اصلی ہیں تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ ٹاورز کو آگ کیسے لگی؟

فائیو جی ٹاورز کو آگ لگنے کے واقعات کے بعد وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی اپنی ٹوئٹ میں اس بات کی وضاحت کی کہ کورونا کے پھیلاؤ میں فائیو جی کا کوئی کردار نہیں۔

وزارت کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ میں فائیو جی کے حوالے سے کی گئی تحقیقات بھی شیئر کی گئیں، جن میں واضح کیا گیا تھا کہ مذکورہ ٹیکنالوجی وبا کو نہیں پھیلاتی۔

حکومت کی جانب سے شیئر کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ فائیو جی کورونا وائرس کو پھیلانے کا باعث نہیں، اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ مذکورہ ٹیکنالوجی وبا پھیلانے سمیت دیگر بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

اسی حوالے سے برطانوی اخبار دی گارجین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر فائیو جی کے حوالے سے افواہیں پھیلنے کے بعد ٹاورز پر کام کرنے والے عملے کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر کئی نامور شخصیات نے بھی ایسی پوسٹس کیں کہ فائیو جی سگنل کورونا پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق درحقیقت مذکورہ پوسٹس کاپی اور پیسٹ کے تحت آگے بڑھائی گئیں اور جن معروف شخصیات نے انہیں شیئر کیا، ان کے لاکھوں فالوورز تھے۔

سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلنے کے بعد ہی لوگوں نے فائیو جی ٹاورز کو آگ لگانے سمیت ان ٹاورز پر مامور عملے کے ساتھ بھی بدتمیزی کی اور انہیں دھمکیاں بھی دیں۔

ادھر ٹیکنالوجی ویب سائٹ سی نیٹ نے بھی اسی حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سوشل میڈیا پر فائیو جی اور ریڈیو سگنل کو کورونا پھیلانے کا سبب قرار دیے جانے کی افواہیں پھیلنے کے بعد برطانوی حکام کے لیے مسئلہ پیدا ہوگیا اور لوگوں نے مبینہ طور پر ٹاورز کو آگ لگادی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فائیو جی سگنل کے حوالے سے متعلق افواہیں شیئر کرنے والی اہم شخصیات میں امریکی اداکاروں سمیت دیگر سوشل میڈیا شخصیات شامل ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ایسی افواہوں پر یقین کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے افواہیں پھیلنے کے بعد برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو مشکلات کا سامنا ہے اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نہ صرف فائیو جی سگنل بلکہ ریڈیو سگنل بھی کورونا کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں۔

رپورٹ میں مختلف تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ریڈیو اور فائیو جی سگنل سمیت موبائل سگنل بھی کینسر اور کورونا سمیت کسی بھی بیماری کے پھیلاؤ کا باعث نہیں بنتے۔

خیال رہے کہ 5 اپریل کی صبح تک دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 12 لاکھ سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 64 ہزار سے زائد ہوگئی تھی، کورونا کے سب سے زیادہ مریض امریکا میں جب کہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوچکی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024