کیا ایک پرانی ویکسین کورونا وائرس کو روک سکے گی؟
رواں ہفتے آسٹریلیا میں تپ دق (ٹی بی) کے لیے مختلف ممالک میں استعمال ہونے والی ویکسین کو نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تحقیق کا آغاز ہوا۔
سو سال پہلے تیار ہونے والی یہ ویکسین اب یورپ کے کئی ممالک میں اس بیماری کے خلاف آزمائی جارہی ہے اور سائنسدان طبی عملے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کو اس کی مدد سے فوری تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین اب بھی ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں عام استعمال ہوتی ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ ٹی بی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ یہ دیگر امراض کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہورہی ہے۔
یہ ویکسین نومولود بچوں کی اموات کا باعث بننے والی مختلف وجوہات کی روک تھام میں بھی مدد دے رہی ہے اور اس سے نظام تنفس کے انفیکشنز کا خطرہ بھی کم کرتی ہے۔
یہ ویکسین مدافعتی نظام کو مختلف اقسام کے وائرسز، بیکٹریا اور پیراسائٹس انفیکشنز کی شناخت اور ردعمل کی 'تربیت' دیتی ہے، ابھی کورونا وائرس کے حوالے تو شواہد موجود نہیں، مگر اب متعدد کلینیکل ٹرائلز میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پیر کو آسٹریلین سائنسدانوں نے اس ٹرائل کا آغاز کیا جس میں اس ویکسین یا ایک دوا کا استعمال ہزاروں ڈاکٹروں، نرسز اور دیگر طبی ورکرز کو استعمال کرایا جارہا ہے۔
میلبورن کے مردوچ چلڈرنز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی ٹیم کے قائد ڈاکٹر نیجل کرٹس نے بتایا ' اس ویکسین سے مدافعتی نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے جس سے مختلف انفیکشن کے خلاف بہتر دفاع میں مدد مل سکتی ہے'۔
یہ تحقیق 6 ماہ تک جاری رہے گی اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ویکسین ٹی بی کے خلاف تیار کی گئی تھی مگر اب بھی اسے دنیا بھر میں سالانہ 13 کروڑ بچوں کو دی جاتی ہے، جس سے انسانی مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے، اور اسے جراثٰموں کے خلاف پوری شدت سے لڑنے کی تربیت ملتی ہے۔
نیدرلینڈ میں ایک ہزار طبی ورکرز پر اس کا ٹرائل 10 دن پہلے شروع ہوا تھا اور راڈبوڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر میہائی جی نیٹیا کے مطابق 800 افراد اس کے لیے رضاکارانہ طور پر تیار ہوچکے ہیں۔
میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی امیونوبائیولوجی ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈینس فوسٹمین بھی امریکا میں اس ویکسین کے ٹرائل کے لیے فنڈنگ کی خواہشمند ہیں ، جس کے ابتدائی نتائج 4 ماہ میں دستیاب ہوسکیں گے۔
ڈاکٹر ڈینس کا کہنا ہے 'ہمارے پاس پہلے ہی انسانوں پر کلینیکل ٹرائلز کا ٹھوس ڈیٹا موجود ہے کہ یہ ویکسین آپ کو وائرل اور پیراسائٹ انفیکشنز سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے، میں تو اس کا ٹرائل آج ہی شروع کرنا چاہتی ہوں'۔
اس ویکسین کی تاریخ میں غیرمعمولی ہے جس کو بنانے کا خیال اس وقت سامنے آیا جب طبی ماپرین نے مشاہدہ کیا کہ دودھ دوہنے والی خواتین ٹی بی سے محفوظ رہتی ہیں۔
اس ویکسین کا نام اسے بنانے والوں ڈاکٹر البرٹ کالمیٹی اور ڈاکٹر کامیلی گیورن پر رکھا گیا جو انہوں نے 1900 کے اوائل میں ٹی بی کی ایسی قسم سے تیار کی جو مویشیوں کو متاثر کرتی ہے۔
اس ویکسین کی ایک دہائی تک جانوروں پر آزمائش کے بعد پہلی بار 1921 میں اسے انسانوں کو استعمال کرایا گیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے دنیا بھر میں عام استعمال کیا جانے لگا۔
دیگر ویکسینز کی طرح بی سی کا بھی ایک مخصوص ہدف ہوتا ہے یعنی ٹی بی، مگر گزشتہ دہائی کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ویکسین دیگر مثبت اثرات بھی مرتب کرتی ہے، یعنی وائرل، نظام تنفس کے انفیکشن اور عفونت کی شدت میں کمی آتی ہے جبکہ جسمانی مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔
سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں صفائی پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ بچوں کا جراثیم سے تعلق کم ہوگیا، تربیت میں کمی سے مدافعتی نظام کمزور ہوا اور مرض کے خلاف مزاحمت بھی کم ہوگئی۔
2011 میں مغربی افریقی ملک گنی بسائو میں ڈھائی ہزار بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں اس ویکسین کے فوائد پر روشننی ڈالی گئی تھی۔
تحقیق کے مطابق اس ویکسین کے نتیجے میں کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح میں ڈرامائی کمی آئی۔
اس کی فالو اپ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے نتیجے میں پیدائشی طور پر کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں وبائی امراض سے اموات کی شرح 40 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی۔
دیگر تحقیقی رپورٹس جن میں ایک 25 سال تک جاری رہنے والی تحقیق بھی ہے، جس میں 33 ممالک کے ڈیڑھ لاکھ بچوں کو شامل کیا گیا تھا، میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے نتیجے میں بچوں میں سانس کے انفیکشنز کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوگیا۔
بزرگ افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بی سی جی ویکسینیشن سے بالائی نظام تنفس کے انفیکشنز کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ متعدد اقسام کے انفیکشنز کے خلاف اس ویکسین کے اثرات پر مزید ٹرائلز ہونے چاہیے۔
آسٹریلیا میں اس پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر نیجل کرٹس کے مطابق 'اس ویکسین نے پولیو ویکسین کی طرح متعدد زندگیاں بچائی ہیں، اس کی کہانی حیرت انگیز ہے'۔
انہیں توقع ہے کہ اس پر تحقیق سے آسٹریلیا کو کورونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام سے مدد مل سکتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کووڈ 19 کے لیے مخصوص ویکسین نہیں اور یہ ان لوگوں کو مدد نہیں کرسکے گی جن کا مدافعتی نظام پہلے سے کمزور ہو، کیونکہ یہ زندہ وائرس والی ویکسین ہے، آسان الفاظ میں اس میں زندہ مگر کمزور ٹی بی وائرس کو شامل کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ڈینس فوسٹمین اس ویکسین کو کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں موجود مریضوں پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ بہت تیزی سے کام نہیں کرسکے گی اور دیگر طریقہ علاج کے اثر پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
حال ہی میں ایک تحقیق میں متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک میں نئے کورونا وائرس کے اثرات اور بی سی بی ویکسین کے درمیان ایک تعلق کو دریافت کیا گیا۔
یعنی ایسے ممالک جہاں اس ویکسین کا استعمال نہیں ہورہا، وہاں کورونا وائرس کے کیسز اور اموات کی شرح زیادہ ہے، کم آمدنی والے ممالک کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ کووڈ 19 کے ناقابل اعتبار ڈیٹا اور ناقص طبی نظام قرار دی گئی۔
ڈاکٹر ڈینس کا کہنا ہے 'آپ ایک نئی ویکسین تیار کرسکتے ہیں، ہم واقعی اسمارٹ ہیں اورر ہم ایسا کرسکتے ہیں، مگر اس کے لےی 2 سال لگ سکتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ ان 2 برسوں میں بہت تاخیر ہووجائے'۔
ان کا کہنا تھا 'اگر ہمارے دنیا بھر میں دستیاب ایک چیز موجود ہو جسے استعمال کرکے ہم انسانوں کو مضبوط بناسکتے ہیں، تو یہ ہر ایک کی ہی کامیابی ہوگی'۔