• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

کورونا وائرس: جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے زیادہ اموات انڈونیشیا میں ریکارڈ

شائع April 4, 2020
انڈونیشیا میں اموات کی شرح 9.1 فیصد تک پہنچ گئی—فائل فوٹو: اے پی
انڈونیشیا میں اموات کی شرح 9.1 فیصد تک پہنچ گئی—فائل فوٹو: اے پی

دنیا بھر میں پھیلنے والے کورونا وائرس کا جہاں اس وقت یورپ اور امریکا مرکز بنا ہوا ہے وہیں جنوب مشرقی ایشیا میں بھی اس سے ہونے والی اموات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور اب انڈونیشیا میں اس سے سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 2 مارچ کو انڈونیشیا میں کورونا وائرس کے 2 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے جو اب بڑھ کر تقریباً 2 ہزار تک پہنچ گئے ہیں جبکہ امریکی یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اموات 191 ہوگئی ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ان اموات کے بعد یہ ملک جنوب مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس سے اموات کے حساب سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا۔

اس حوالے سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق جمعہ تک دنیا میں 5.2 فیصد اموات کی شرح کے مقابلے میں انڈونیشیا میں موت کی شرح 9.1 فیصد پر موجود ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن، گشت کیلئے پولیس روبوٹ تعینات

اسی کے برعکس فلپائن میں یہ شرح 4.5 فیصد جبکہ ملائیشیا میں 1.6 فیصد ہے تاہم ان دونوں ممالک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اور دونوں ملکوں میں 3، 3 ہزار سے زائد کیسز ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

رپورٹ میں انڈونیشیا کے سرکاری اخبار کومپاس کی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس وائرس سے سب سے زیادہ دارالحکومت جکارتہ متاثر ہے اور وہاں 95 صحت ورکرز اس وائرس سے متاثر ہوئے، علاوہ ازیں انڈونیشیا کی حکومت نے بتایا کہ صرف 2 اپریل کو کم از کم 13 افراد ہلاک ہوگئے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ جنوری اور فروری میں ایک بھی متاثرہ فرد نہ ہونے کے باوجود مارچ میں انڈونیشیا میں اچانک تیزی دیکھی گئی۔

ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی کے حساب سے چوتھے بڑے ملک میں پھیلا ہوا صحت کا نظام، حفاظتی تحفظ کے سامان کی کمی اور ٹیسٹنگ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس سے اموات کی تعداد زیادہ ہوئیں۔

اس حوالے سے بندنگ میں پڈجڈجاران یونیورسٹی کے ایک رکن پانجی فورچیونا کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت اس وائرس کے پھیلاؤ کے تناظر میں ابھی بھی کچھ اقدام اٹھانے میں پیچھے ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیبارٹریز اور جانچنے کے آلات کی دیر سے فراہمی کے باعث ٹیسٹ کی تعداد میں کمی ہوئی جبکہ صحت کے حکام تیار نہیں ہیں جبکہ گھر پر رہنے کی پالیسی بھی ابھی تک صرف ایک اپیل تک موجود ہے اور معلومات کے حوالے سے بھی کم شفافیت ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا کی وزارت صحت کے مطابق ملک بھر میں 2 ہزار 813 ہسپتال ہیں اور ہر 10 ہزار لوگوں کے لیے 12 بستر دستیاب ہیں جبکہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق 26 کروڑ آبادی والے اس ملک میں تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار 40 ڈاکٹرز یا یوں کہیں کہ ہر 10 ہزار افراد کے لیے تقریباً 4 ڈاکٹرز موجود ہیں۔

علاوہ ازیں انڈونیشیا کے ایک آن لائن ادارے کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں چین سے آنے والی 5 لاکھ ریپڈ ٹیسٹنگ کٹس موجود ہیں اور 2 اپریل تک یہاں ہر 10 لاکھ میں سے صرف 25 لوگوں کا ٹیسٹ کیا گیا تھا جو ایشیا میں دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

مزید یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے برعکس بھارت میں ہر 10 لاکھ میں سے 35 جبکہ جنوبی کوریا میں 8 ہزار 222 افراد کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں انڈونیشیا کی اموات کی شرح خطے میں سب سے زیادہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا تو حکومتی ترجمان اچمد یوریانتو نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وائرس سے ہلاک افراد کو خراج عقیدت، چین میں 3 منٹ کی خاموشی

انہوں نے کہا کہ متحرک ڈیٹا ابھی تک اپ ڈیٹڈ ہے اور اگر لوگوں کی ٹیسٹ کی تعداد بڑھے گی تو (اموات کی شرح) کم ہوگی۔

خیال رہے کہ چین کے شہر ووہان میں گزشتہ برس سے شروع ہونے والا یہ کورونا وائرس عالمی وبا قرار دیا جاچکا ہے اور عالمی سطح پر اعداد و شمار بتانے والی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وائرس سے 59 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 11 لاکھ 23 ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر ہیں۔

اس وائرس سے سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جہاں تعداد ساڑھے 14 ہزار سے زائد ہے جبکہ دوسرا نمبر اسپین کا ہے جہاں 11 ہزار سے زیادہ لوگ مرچکے ہیں۔

اگر انڈونیشیا کے قریبی ممالک میں اموات کو دیکھیں تو فلپائن میں اب تک 144 جبکہ ملائیشیا میں 57 افراد اس وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024