’جو تاجر پہلے لوگوں کی مدد کرتے تھے، وہ اب خود محتاج ہوگئے ہیں‘
پاکستان میں کورونا وائرس کے کیس رپورٹ ہونے اور مقامی سطح پر منتقلی کے کیس سامنے آنے کے بعد سندھ حکومت نے 17مارچ کی شام جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، جس میں تمام بڑی چھوٹی دکانوں، مارکیٹوں، شاپنگ مالز اور دیگر کاروباری مراکز کو بند کرنے اور وہاں پر لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
کراچی کے دکاندار اور ان کی قیادت پہلے دن سے ہی اس لاک ڈاؤن کے فیصلے سے ناخوش دکھائی دے رہی تھی، مگر جب حکومت نے اس لاک ڈاؤن میں مزید 15 روز کی توسیع کا اعلان کیا تو ایسا لگا جیسے تاجروں کا ضبط جواب دینے لگا ہے۔
آخر کیوں دکانداروں کو اپنی اور اپنے ملازمین کی زندگی سے پیار نہیں ہے اور وہ کیوں اپنے کاروبار کو جلد از جلد شروع کرنا چاہتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جس کا جواب ہم اس تحریر میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ریٹیل ہول سیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 19فیصد ہے۔ ملک میں ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، جبکہ صرف کراچی شہر کی 550 مارکیٹوں میں 6 لاکھ سے زائد دکانیں قائم ہیں، اور یہاں سے ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد افراد براہِ راست یومیہ اجرت کماتے ہیں۔
کراچی شہر میں ملک کی بڑی ہول سیل مارکیٹیں بھی ہیں جہاں سے صرف شہر بھر میں ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف قصبوں، گاؤں اور شہروں میں اشیا کی ترسیل پہنچائی جاتی ہے۔ مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ دکانیں گزشتہ کئی ہفتوں سے بند ہیں۔
کروڑوں روپے مالیت کا مال گودام میں ہے مگر خرچ کرنے کو کوڑی بھی نہیں
کراچی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ 18مارچ سے اب تک دکانیں مستقل بند ہیں۔ ان دکانوں اور گوداموں میں لاکھوں روپے مالیت کا سامان پڑا ہوا ہے مگر چونکہ یہ مال فروخت نہیں ہورہا اس لیے ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے نقد رقم ختم ہوتی جارہی ہے۔
کراچی الیکٹرانک سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان کا کہنا ہے کہ ان کی ایسوسی ایشن میں شہر کی 10ہزار دکانیں رجسٹرڈ ہیں۔ صرف صدر کے علاقے میں 4 ہزار الیکٹرانکس کی دکانیں ہیں، جہاں سے کم و بیش 30 ہزار سے زائد خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ شہر میں کبھی اتنے طویل عرصے کے لیے مارکیٹیں بند نہیں ہوئیں اور مزید 15دن کا لاک ڈاؤن کاروباری برادری کا دیوالیہ نکال دے گا۔
آل سٹی تاجر اتحاد ایسوسی ایشن کے سربراہ شرجیل گوپلانی کا کہنا ہے دکانوں کی بندش کی وجہ سے ان دکانداروں کو بھی مدد کی ضرورت پیش آگئی ہے جو مشکل حالات میں دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے۔
آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز کے سربراہ محمود حامد کا کہنا ہے کہ کاروبار کو بند ہوئے 15 دن سے زائد ہوگئے ہیں اور چھوٹے دکانداروں کے پاس جو بھی نقد تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔ دکاندار یومیہ رولنگ پر چلتا ہے۔ یومیہ لاکھوں کا سامان خریدتا اور فروخت کرکے اپنا کمیشن نکال لیتا ہے۔ لیکن اب اس بندش سے صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جو لوگ مشکل وقت میں راشن وغیرہ تقسیم کیا کرتے تھے وہ لوگ بھی اب محتاج ہوتے جارہے ہیں۔
کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن سے یومیہ اجرت والے مزدور کی روزی ختم ہوگئی ہے۔ اگر حکومت نے خود لاک ڈاؤن ختم نہ کیا تو پھر لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور انہیں بزورِ طاقت روکنا مشکل ہوجائے گا۔
حکومت سب کو روٹی نہیں دے سکتی ہے
تاجر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا وبا کی وجہ سے بیمار ہونے کا خدشہ ہے، مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد دوسرا شروع ہوچکا ہے مگر ابھی تک حکومت کسی بھی بیروزگار فرد کو نہ تو کھانا، نہ راشن اور نہ ہی نقد امداد فراہم کرنے میں کامیاب ہوپائی ہے۔
محمود حامد کے مطابق وفاق میں ابھی تو ٹائیگر فورس کی بھرتی ہی ہورہی ہے۔ ناجانے یہ فورس کب بنے گی اور کب لوگوں میں امداد تقسیم ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم نے تعمیراتی صنعت کے لیے پیکج کا اعلان کیا ہے یعنی اس پر عملدرآمد کے لیے سیمنٹ، سریا، ٹائلیں، سینیٹری، بجلی اور دیگر دکانوں کو کھولنا ہوگا، بصورت دیگر تعمیراتی صنعت کا پیکج کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
چھوٹے تاجروں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو مارچ کی تنخواہ ادا کریں گے۔ شرجیل گوپلانی، عتیق میر اور دیگر تاجر رہنماوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ملازمین کو مارچ کی تنخواہ تو ادا کردی ہے مگر اپریل کے مہینے میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
دکانوں کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز
دکانداروں کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دکانوں کا کرایہ اور یوٹیلیٹز کی ادائیگیوں سے متعلق لاحق ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مارچ کا مہینہ ختم ہوتے ہی مالکان نے کرائے کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ مگر دکاندار کیا کریں؟ جب کاروبار ہی نہیں ہوا تو رقم کہاں سے دیں؟
شرجیل گوپلانی نے دوٹوک انداز میں یہ کہہ دیا ہے کہ ان کی تنظیم سے وابستہ دکانداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نہ تو بندش کے دورانیے کا کرایہ ادا کریں گے اور نہ ہی بجلی گیس یا دیگر یوٹیلیٹی کے بلز کی ادائیگی کریں گے۔
محمود حامد کا کہنا ہے کہ مہینہ ختم ہوتے ہی دکانداروں اور دکان کے مالکان کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے ہیں، جبکہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی راستہ نہیں نکالا ہے۔
عتیق میر کا کہنا ہے کہ وفاق میں تو مشیرِ خزانہ نے بجلی کے بلوں کی ادائیگی 3 ماہ کے لیے مؤخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اس مقصد کے لیے ریلیف پیکج میں ایک سو ارب روپے رکھے ہیں۔ مگر ’کے الیکٹرک‘ نے مارچ اور اپریل میں اوسط بل بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا حکومت کی پالیسی ہے کیا؟
بندرگاہوں پر کنٹینر پھنس گئے ہیں بھاری جرمانے ہورہے ہیں
شرجیل گوپلانی کا کہنا تھا کہ تاجروں نے جو سامان دکانوں پر فروخت کے لیے درآمد کیا تھا، وہ سامان لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورٹ پر پھنسا ہوا ہے۔ اس سامان کی نہ تو کسٹم سے کلئینرنس ہورہی اور نہ ہی اس کو گودام تک منتقل کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور لیبر فورس دستیاب ہے، اور اگر یہ چیزیں دستیاب ہو بھی جائیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سامان اتارنے نہیں دے رہے ہیں۔
اس وقت کراچی کی بندرگاہوں پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد کنٹینرز جمع ہوگئے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو پھر پاکستان سے درآمدات اور برآمدات مکمل طور پر بند ہوجائیں گی اور کورونا ایمرجنسی کے لیے بھی سامان کو اتارنے کی گنجائش نہیں بچے گی۔
بندرگاہوں پر موجود ان کنٹینرز کا یومیہ ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارج بھی بڑھ رہا ہے۔ بھارت میں شپنگ کمپنیوں نے یہ چارجز معاف کردیے ہیں مگر پاکستان میں یہ معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ شپنگ کمپنیاں ایک کنٹینر پر یومیہ 24 ہزار روپے ڈیٹنشن وصول کررہی ہیں جس کی ادائیگی غیر ملکی کرنسی میں کرنا ہوتی ہے۔
گوپلانی کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر برائے بندرگاہ اور جہاز رانی علی زیدی سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بینک کا قرض اور روپے کی قدر میں کمی سے تاجر تو لٹ گئے
کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے سابق نائب صدر ادریس میمن کا کہنا ہے اس وقت کراچی میں بڑے پیمانے پر شادیاں ہوتی ہیں، جس کے لیے الیکٹرانک مصنوعات کی طلب بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں ایئرکنڈیشنر، فریج اور ڈسپینسر کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے دکانداروں نے الیکٹرانک مصنوعات کی بڑی کھیپ بینکوں سے قرض لے کر خریدی تھی۔ لیکن اب ایک طرف مارکیٹ بندش سے کروڑوں روپے مالیت کا الیکٹرانک سامان گوداموں میں پڑا پڑا سڑ رہا ہے تو دوسری طرف بینکوں کا سود بڑھ رہا ہے۔
ادریس میمن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تاجر مؤخر ادائیگی کے معاہدے پر بھی چین اور دیگر ملکوں سے مصنوعات درآمد کرتے ہیں اور اس کی ادائیگی معاہدے کے تحت کی جاتی ہے۔ تاجروں نے اس اسکیم پر عمل کرتے ہوئے مال ملک میں منگواکر فروخت کردیا اور ادائیگی سے قبل ہی لاک ڈاؤن ہوگیا ہے۔ جس کے بعد روپے کی قدر تیزی سے گرگئی۔ یعنی ایک ڈالر جو 158روپے کا تھا وہ اب 166روپے کا ہوگیا ہے۔ کرنسی کی گراوٹ میں فی ڈالر 8 روپے کا نقصان امپورٹر کو اٹھانا پڑے گا۔
ادریس میمن کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے جن مراعات کا اعلان کیا ہے ان پر عمل تو اس وقت ہوگا جب مارکیٹیں کھلیں گی۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دکانداروں کی چیک بک اور دیگر کاغذات مارکیٹ میں ہی ہوتے ہیں، اور اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ کچھ بھی نکالنے سے قاصر ہیں۔ چند دکانداروں نے اپنے متعلقہ بینکوں سے رابطہ کیا ہے مگر بینک انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی گائیڈ لائن جاری نہیں کی ہے۔ اس لیے جب تک لاک ڈاؤن نہیں ختم ہوتا تب تک اس پر عملدرآمد ہوتا بھی نظر نہیں آرہا ہے۔
تو حل کیا ہے؟
تاجر مارکیٹ کی بندش کا حل بھی بتا رہے اور اس پر عملدرآمد کرانے کے لیے اقدامات کرنے کو بھی تیار ہیں۔ عتیق میر کا کہنا ہے کہ ’ان کی ایسوسی ایشن حکومتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرے گی، مگر حکومت کو چاہیے کہ دکانوں کو بتدریج کھولنے کی اجازت دے۔ حکومت جو حفاظتی اقدامات کہے گی اس کو اختیار کریں گے‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں چند گھنٹے کاروبار کرنے کی اجازت ہو اور اس کے ساتھ بیماری کے پھیلاؤ کو مانیٹر بھی کیا جائے۔ اگر کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو تو حکومت دکانیں مستقل بند کرادے اور وہ احتجاج نہیں کریں گے، لیکن ابھی فوری طور پر تو سختی کو کچھ کم کیا جانا ضروری ہوچکا ہے۔
عتیق میر نے سوال اٹھایا کہ اکثر میڈیا پر یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لوگ راشن لینے کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ اگرچہ وہ بھی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ہے، لیکن ان کو نہیں روکا جاتا، تو بھائی جو لوگ محنت سے روزی کمانے کی اجازت مانگ رہے ہیں ان کے لیے یہ سختی کیوں؟ ان کو بھی کمانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور نہ ہوسکیں۔
محمود حامد کا کہنا ہے کہ چھوٹے تاجروں نے اجلاس کیا ہے اور اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام تر حفاظتی اقدامات اٹھا کر کاروبار کھولنے کے لیے تیار ہیں۔
محمد رضوان کہتے ہیں کہ حکومت دکانیں کھولنے کی اجازت دے تو وہ اور دکاندار ہر قسم کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔ دکانوں کے باہر ہاتھ دھونے اور سینیٹائزر کی فراہمی، ملازمین اور خریداروں کا بخار چیک کرنے، ملازمین اور خریداروں کو ماسک اور دستانے بھی فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جس طرح کھانے پینے کی دکانوں پر سماجی فاصلے پر عمل کروا رہے ہیں، دکاندار بھی ان سب پر عمل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
تاجروں کی مشکلات اپنی جگہ مگر حکومت کی مشکلات بھی ہمیں سمجھنی ہوں گی۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہوچکا ہے کہ دونوں مل کر ان مسائل کا حل تلاش کریں تاکہ شہر میں ایک بار پھر محفوظ کاروبار پنپ سکے۔
تبصرے (5) بند ہیں