• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’کورونا وائرس خطرناک ہے مگر بھوک اس سے بھی زیادہ‘

شائع April 3, 2020
پاکستان کے صوبہ سندھ میں تقریبا 5 لاکھ افغان مہاجرین بستے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
پاکستان کے صوبہ سندھ میں تقریبا 5 لاکھ افغان مہاجرین بستے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مضافات میں رہنے والے تقریباً ڈھائی لاکھ افغان مہاجرین اگرچہ پہلے ہی محدود وسائل، پینے کے صاف پانی اور صحت کی سہولیات سے محروم تھے، تاہم ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے ان کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔

گندے میلے کچے مکانات، سیوریج کے پانی سے بھرے راستے اور صحت کے لیے مضر پانی پینے اور خوراک پر گزارا کرنے والے ان افغان مہاجرین کے بچے عام طور پر بھی ڈائریا اور سانس کی بیماریوں سمیت دیگر طبی مسائل کا شکار رہتے ہیں اور لاک ڈاؤن کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

عام طور پر ان افراد کی بستی کو افغان بستی کہا جاتا ہے جو کہ ٹوٹے پھوٹے مکانات میں رہنے سمیت شیلٹر ہومز میں گزارا کرتے ہیں جب کہ روزگار کے لیے وہ کراچی شہر جاکر مزدوری کرنے سمیت چھوٹے پیمانے پر کاروبار بھی کرتے ہیں۔

مگر جب سے کورونا وائرس کی وجہ سے سندھ میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہے، تب سے وہ بستی تک محدود ہوگئے ہیں اور اب انہیں غذائی قلت جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اگرچہ لاک ڈاؤن کے بعد حکومت یا پاکستان کے مخیر حضرات غریب افراد کو راشن دینے سمیت ان کی مالی مدد بھی کر رہے ہیں، تاہم شاید ہی کسی مخیر شخص اور حکومت کی ترجیح میں افغان مہاجرین بھی شامل ہوں جو کورونا سے زیادہ بھوک کو خطرناک سمجھتے ہیں۔

افغان بستی میں رہنے والے زیادہ تر افراد کورونا وائرس کے بجائے بھوک کو خطرناک سمجھتے ہیں، جو دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیاں نگل جاتی ہے۔

صوبہ سندھ میں 5 لاکھ تک افغان مہاجرین ہیں جب کہ دارالحکومت کراچی میں 3 لاکھ تک افغان شہری بستے ہیں جن میں سے زیادہ تر مزدوری کا کام کرتے ہیں اور اب وہ تمام لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے بعد مہاجرین کی مشکلات بڑھنے پر ترک خبر رساں ادارے اناطولو سے بات کرتے ہوئے افغان بستی کے مہاجرین کے سربراہ حاجی عبداللہ نے بتایا کہ اگرچہ کورونا وائرس بھی خطرناک ہے مگر بھوک اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اسی وجہ سے ہی ہم پریشان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر افغان بستی میں کسی بھی شخص کے ساتھ ماسک اور سینیٹائزر سے متعلق بات کی جائے تو اسے کسی چیز کا کچھ علم نہیں ہوگا مگر وہ خوراک اور بھوک پر بات ضرور کرے گا۔

اس وقت پاکستان میں افغانستان کے رجسٹرڈ مہاجرین کی حتمی تعداد کا کسی کو معلوم نہیں تاہم اندازہ ہے کہ یہاں پر 28 لاکھ سے زائد مہاجرین موجود ہیں جو کہ ترکی میں موجود شامی مہاجرین کے بعد دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے مطابق پاکستان سے مجموعی طور پر 38 لاکھ مہاجرین واپس افغانستان چلے گئے تھے لیکن 2002 کے بعد وہاں پھر سے خانہ جنگی اور دہشت گردی شروع ہونے کے بعد لاکھوں افغانی شہری واپس پاکستان آ چکے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کی حتمی تصدیق سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم اندازہ ہے کہ ان کی تعداد 28 سے 30 لاکھ کے درمیان ہے لیکن رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد اس سے نصف ہے۔

لاک ڈاؤن سے پریشانی میں اضافہ

کورونا وائرس سے بچاؤ کے تحت حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کیے جانے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے حاجی عبداللہ نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے افغان مہاجرین اور خصوصی طور پر نوجوانوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ وہ روزگار کرنے سے قاصر ہیں جب کہ ان کے گھروں میں راشن کا سامنا بھی کم پڑنے لگا ہے مگر تاحال حکومت یا کسی فلاحی ادارے کو ان کی بستی کا خیال نہیں آیا۔

لاک ڈاؤن سے نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ خیبرپختونخوا میں رہنے والے افغان مہاجرین بھی پریشان کا شکار ہیں۔

پشاور میں سبزی فروخت کرکے گزر بسر کرنے والے افغان مہاجر رحمت اللہ ولی نے اناطولو کو بتایا کہ گزشتہ 9 دن سے ان کی دکانیں بند ہیں، جس وجہ سے انہیں نہ صرف مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ ہزاروں افغان مہاجرین بے روزگار بھی ہوچکے ہیں۔

انہوں نے اپنی مثال دی کہ وہ خود بھی متعدد افغان مہاجرین کو روزگار فراہم کرتے تھے مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے دکان بند کرکے سب کو واپس اپنے گھروں کی جانب بھیج دیا۔

اسی طرح کے مسائل کا ذکر اسلام آباد کے عبدالواحد عفکری نے بھی کیا اور بتایا کہ وہ راولپنڈی میں پھل فروخت کرتے تھے مگر گزشتہ ایک ہفتے سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے کام بند کیا اور وہ گھر میں بے روزگار بیٹھے ہوئے ہیں۔

چار بچوں اور اہلیہ کے اخراجات اٹھانے والے عبدالواحد نے بتایا کہ ان کا کاروبار چھوٹے پیمانے پر تھا، جس وجہ سے ان کی بچت بھی اتنی نہیں اور اگر لاک ڈاؤن مزید دن تک جاری رہا تو ان کے پاس جو تھوڑے بہت پیسے ہیں، وہ بھی گھر کے اخراجات میں ختم ہوجائیں گے اور وہ پھر کاروبار کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ان جیسے غریب افراد کی مالی مدد کے لیے خصوصی اور تیزی سے انتطامات کرے۔

پاکستان حکومت کی افغان مہاجرین کی مدد کے لیے اقوام متحدہ سے مدد طلب

لاک ڈاؤن کی وجہ سے افغان مہاجرین کی مشکلات میں اضافے کےبعد حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق خصوصی ادارے یو این سی ایچ آر سے مدد کا مطالبہ کیا ہے۔

سرحدی امور کے وزیر مملکت شہریار آفریدی نے یو این سی ایچ آر کو خط لکھ کر ان سے مدد کا مطالبہ کیا ہے۔

شہریار آفریدی نے اپنے خط میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کو لکھا ہے کہ وہ کم سے کم پاکستان بھر میں رہنے والے 52 رجسٹرڈ بستیوں کے افغان مہاجرین کی ضروریات مکمل کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔

وزیر مملکت نے اپنے خط میں یو این سی ایچ آر سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی ریاستی پالیسی اور افغان مہاجرین کے تحفظ کے حوالے سے اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ حکومت کی مدد کرے اور لاکھوں افغان مہاجرین کو غذائی اشیا فراہم کرنے کے لیے فنڈ فراہم کرے۔

شہریار آفریدی نے اسی حوالے سے اناطولو کو بتایا کہ پاکستانی حکومت بھی افغان مہاجرین کو راشن سمیت دیگر سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم مہاجرین بہت بڑی تعداد میں ہیں اور حکومت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے، اس لیے یو این سی ایچ آر کو اس ضمن میں آگے آکر حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان، ترکی، ایران و بنگلہ دیش جیسے ممالک دنیا کے 80 فیصد مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں دولت ممالک اور عالمی اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان ممالک کی مدد کریں۔

شہریار آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ہی حکام کو افغان مہاجرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایات کر رکھی ہیں۔

اسی حوالے سے یو این سی ایچ آر کے ڈپٹی ترجمان نے اناطولو نے اعتراف کیا کہ یہ سچ ہے کہ ان کا ادارہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو راشن فراہم نہیں کر رہا، تاہم انہوں نے بھی کہا کہ وہ دیگر طریقوں سے مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں۔

ڈپٹی ترجمان کے مطابق یو این سی ایچ آر حکومت پاکستان کے تمام متعلقہ وزارتوں اور عہدیداروں سے رابطے میں رہتا ہے اور ان کا ادارہ ملک بھر میں افغان مہاجرین کو دوائیوں اور سینیٹیشن کی ضروری چیزیں فراہم کر رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ حکومت پاکستان سے بھی رابطے میں ہیں اور ان سے کورونا وائرس کے حوالے سے جو بھی مدد ہوسکے گی وہ ضرور کریں گے اور ان کے لیے تمام مہاجرین یکساں ہیں، وہ بلاتفریق ہر کسی کے ہر مشکل وقت میں مدد کرتے ہیں۔

تاہم دوسری جانب کراچی کی افغان بستی کے سربراہ حاجی عبداللہ نے الزام عائد کیا کہ یو این سی ایچ آر سمیت دیگر عالمی فلاحی ادارے ان کے مسئلے کو اہمیت نہیں دے رہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اسلام آباد میں یو این سی ایچ آر کے عہدیداروں سے ذاتی طور پر رابطہ کرکے افغان مہاجرین کی مشکل وقت میں مدد کے لیے کہا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ مہاجرین کے معاملے کو دیکھ رہیں، مگر تاحال کچھ نہیں ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024