کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستانیوں کی زندگی کتنی بدل گئی؟
نئے نوول کورونا وائرس نے چند ماہ کے اندر دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس وائرس کے اثرات کب تک برقرار رہتے ہیں، یہ کہنا تو فی الحال مشکل ہے مگر ایسا نظر آتا ہے کہ اس کے بعد بھی زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہوجائے گا، جیسے صفائی کی عادات، گھر سے باہر گھومنا اور دیگر۔
کم از کم گوگل کی ایک نئی رپورٹ سے تو ایسا ہی عندیہ ملتا ہے جو اس نے اسمارٹ فون لوکیشن ڈیٹا کی مدد سے تیار کی ہے تاکہ دنیا بھر میں حکومتی عہدیداران کو عوامی نقل و حمل کو سمجھنے میں مدد مل سکے، جس کے مطابق وہ اپنے ردعمل کو ترتیب دے سکیں۔
کووڈ 19 کمیونٹی موبیلیٹی رپورٹس کے نام سے گوگل نے اس ڈیٹا کو جمعے کو جاری کیا۔
اس رپورٹ کے لیے گوگل نے ایسے افراد کا ڈیٹا استعمال کیا جنہوں نے اپنی لوکیشن ہسٹری گوگل میں اسٹور کرنے کے آپشن کو اختیار کررکھا ہے، تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ لوگ سماجی دوری کی حکومتی ہدایات کی کس حد تک تعمیل کرہے ہیں۔
اس کے لیے پاکستان سمیت 131 ممالک کے ڈیٹا کو جاری کیا گیا اور کمپنی کا کہنا تھا ' اس وقت جب عالمی برادری کووڈ 19 وبا پر ردعمل ظاہر کررہی ہے، وہیں عوامی طبی حکمت عملیوں جیسے سماجی دوری کے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے تاکہ وائرس کے پھیلائو کو سست کیا جاسکے، اس مقصد کے لیے ہم نے ڈیٹا اکٹھا کیا تاکہ بتایا جاسکے کہ مخصوص مقامات پر اب کتنے لوگ ہوتے ہیں، مقامی کاروبار پر کس وقت زیادہ رش ہوتا ہے'۔
گوگل کی جانب سے ہر ملک میں عوامی نقل و حرکت کے مقامات کو 6 کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا۔
ریٹیل اینڈ ریکریشن میں ریسٹورنٹس، کیفے، شاپنگ سینٹرز، تھیم پارکس، میوزیم، لائبریریز اور سنیما گھروں کو شامل کیا گیا۔
گروسری اینڈ فارمیسی میں سودا سلف کی مارکیٹیں، فوڈ وئیر ہائوس، فارمرز مارکیٹ، کھانے پینے کی دکانیں، میڈیکل اسٹور شامل تھے۔
پارکس میں ساحلی مقامات، پلازے اور دیگر عوامی مقامات کو شامل کیا گیا۔
ٹرانزٹ اسٹیشنز کی کیٹیگری میں پبلک ٹرانسپورٹ مراکز شامل تھے۔
ورک پلیسز دفاتر پر مشتمل کیٹیگری تھی جبکہ ریذیڈنس لوگوں کے گھروں کو کور کرنے والا شعبہ تھا۔
گوگل کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں 16 فروری سے 29 مارچ تک ان کیٹیگریز میں درج ذیل تبدیلیاں عمل میں آئیں۔
ریٹیل اینڈ ریکریشن یعنی ریسٹورنٹس، ہوٹلوں اور دیگر مقامات پر لوگوں کے جانے کی شرح میں 70 فیصد تک کمی آئی۔
گروسری کیٹیگری یعنی اشیائے خورونوش کی خریداری کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی شرح 55 فیصد تک کم ہوگئی، پارکس یعنی تفریحی مقامات پر جانے کی شرح 45 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے مراکز پر جانے کی شرح میں 62 فیصد کمی آئی، جبکہ دفاتر جانے والے افراد کی تعداد 41 فیصد کم ہوگئی۔
اس کے مقابلے میں گھروں پر لوگوں کی مجودگی میں 18 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
وویسے تو یہ 16 فروری سے 29 مارچ تک ہونے والی تبدیلیاں ہیں مگر ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے بنیادی طور پر کمی یا اضافے کا سلسلہ 10 سے 29 مارچ کے درمیان دیکھنے میں آیا، خصوصاً ملک بھر میں لاک ڈائون کے بعد۔
گوگل ڈیٹا میں کسی فرد کی معلومات کی شناخت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی مخصوص کیٹیگری والے مقام پر جانے کے اعدادوشمار دیئے گئے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ ڈیٹا کو اپ ڈیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اس پر عملدرآمد کے دورانیے کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔