• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

پاکستان کی شرح نمو کم ہو کر 2.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک

شائع April 3, 2020
ایشیائی ترقیاتی بینک نےسالانہ رپورٹ ’ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک 2020‘ شائع کردی—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایشیائی ترقیاتی بینک نےسالانہ رپورٹ ’ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک 2020‘ شائع کردی—فائل فوٹو: اے ایف پی

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے رواں مالی سال کے دوران زرعی نمو میں سست روی اور کووڈ19 کے پھیلاؤ کے اثرات اور حکومت کی جانب سے استحکام کی کوششوں سے سال 21-2020 میں بحالی سے قبل پاکستان کی معاشی نمو کم ہو کر 2.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی شائع کردہ سالانہ رپورٹ ’ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک 2020‘ میں کہا گیا کہ مالی سال 21-2020 میں مجموعی ملکی پیداوار کی نمو میں اضافہ ہو کر 3.2 فیصد ہو نے کی توقع ہے جس کی وجہ مائیکرواکنامک عدم توازن کی درستی سے سرمایہ کاری میں دوبارہ اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی کو قابو کرنا اور ٹڈی دل کے حملوں میں کمی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کووڈِ19 کے پھیلاؤ سے نمو میں کمی کا خطرہ ہے کیوں کہ اس وبا کو روکنے کے لیے نجی کاروبار عارضی طور پر بند ہیں جس سے صارفین کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وبا نے پاکستان میں سماجی تحفظ کے شعبے کو مضبوط بنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے بالخصوص یہ کہ جس طرح ضرورت بڑھ رہی ہے اس حساب سے سماجی ترقی پر خرچ نہیں کیا جارہا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: پاکستان کی شرح نمو میں مزید 2 فیصد کمی کی پیشگوئی

ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا تھا کہ حکومت جس طرح کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے، پاکستان کی میکرو اکنامک صورتحال کو مستحکم کرنے اور جامع ترقی کی بنیاد قائم کرنے کے لیے تنظیمی اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے کوشاں ہے ویسے ہی اسے احساس (پروگرام) کا استحکام یقینی بنانے کے لیے پر عزم رہنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ موڈیز کی جانب سے پاکستان کا ریٹنگ آؤٹ لک منفی سے مثبت کیے جانے، توانائی کی پیداوار اور کاروبار کے ماحول بہتر بنانے کے لیے اہم اصلاحاتی ڈھانچے پر عملدرآمد سے بھی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔

اس کے علاوہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والے ٹڈی دل کے سب سے خطرناک حملے سے کپاس، گندم اور اہم فصلوں کو نقصان پہنچا جس سے زرعی نمو سست ہونے کی توقع ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے ٹڈی دل پر قابو پانے کے لیے نیشنل ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: مارچ میں 200 ارب روپے محصولات کا شارٹ فال

دوسری جانب مالی سال 2020 کے دوران مہنگائی میں اضافہ کے بعد اس کی شرح 11.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے جس کی وجہ مالی سال کے پہلے حصے میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 9.8 فیصد کی کمی ہے۔

تاہم مالی سال 21-2020 کے دوران مہنگائی 8.3 فیصد رہنے کا امکان ہے جس میں مرکزی بینک کی جانب سے مہنگائی کو روکنے اورمعاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے مزید پالیسی ایکشن لینے کی توقع ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دیہی اور شہری علاقوں کی مارکیٹوں میں قیمتوں کا جائزہ لینے والے نئے طریقے سے مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران دیہی علاقوں میں اشیائے خوراک کی مہنگائی 16.3 فیصد جبکہ شہروں میں یہ شرح 14.5 فیصد رہی۔

تاہم مالی سال کے دوسرے حصے میں فراہمی کا سلسلہ بہتر ہونے سے اشیائے خوراک کی مہنگائی عارضی اور ختم ہونے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ سال 2020 کے دوسرے حصے کے دوران بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی پیش گوئی سے اشیا اور خدمات کی ٹرانسپورٹ اور پیداواری لاگت کم ہوگی جسے صارفین کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔

مزید یہ کہ برآمدات سے منسلک کچھ شعبوں مثلاً ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت میں معتدل نمو کی توقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی، رپورٹ

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے استحکام کو ترجیح دینے کی وجہ سے مالی سال 20-2019 کے دوران مجموعی ملکی خسارہ کم ہو کر 8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

مالی سال کے پہلے حصے کے دوران خسارے میں کمی ہوئی کیوں کہ ایک سال قبل ریونیو کی کلیکشن جی ڈی پی کے 6.1 فیصد سے بڑھ کر 7.3 فیصد ہوگئی تھی۔

مزید یہ کہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی بدولت ہیلتھ کیئر اور سماجی اخراجات زیادہ رہنے کا امکان ہے۔

دوسری جانب پیٹرولیم پر ٹیکس کی کمی سے تیل کی قیمتوں میں کمی کا حکومت کی آمدن پر الٹا اثر پڑ سکتا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلسل کمی کے ساتھ مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کے 2.8 فیصد رہنے کا امکان ہے جس میں کرنسی کی قدر میں کمی سے تجارتی خسارے میں کمی، درآمدی طلب پر قابو پانے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنا اور بیرونِ ملک کام کرنے والوں کی جانب سے تسیلات زر کی بحالی شامل ہے جو مالی سال 16-2015 اور 18-2017 میں کم ہوگئی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024