کورونا وائرس: امریکا بیہودہ تبصروں کے ذریعے شکوک پیدا کررہا ہے، چین
چین نے امریکا پر کڑی تنقید کی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متعلق بیجنگ کی رپورٹنگ پر ’بیہودہ تبصروں‘ کے ذریعے شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ چین نے وبا سے متعلق ہمیشہ ’واضح اور شفاف‘ رویہ اختیار کیا۔
مزید پڑھیں: امریکی فوج کورونا وائرس کو ’ووہان‘ لے کر آئی، چین کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ صحت کے معاملے پر سیاست کرنا چھوڑ دے اور اس کے بجائے اپنے لوگوں کی حفاظت پر توجہ دے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ چین کی جانب سے کورونا وائرس سے متعلق فراہم کردہ اعدادوشمار تھوڑے کم لگتے ہیں۔
علاوہ ازیں ان کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا تھا کہ واشنگٹن کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ بیجنگ کے اعدادوشمار درست ہیں یا نہیں۔
ٹرمپ نے بتایا تھا کہ انہیں چین کے اعداد و شمار کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹ موصول نہیں ہوئی لیکن انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ تعداد تھوڑی بہت کم معلوم ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا میں کورونا وائرس کے مریض چین سے بھی بڑھ گئے
امریکی صدر نے کہا تھا کہ گزشتہ جمعہ کو چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ فون پر گفتگو کی تھی کہ چین نے کورونا وائرس پھیلنے سے متعلق کیسز نمٹائے لیکن اتنے زیادہ نہیں‘۔
جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے تنقیدی رویہ اختیار کرنے کے بجائے یہ بھی کہا کہ امریکا کے چین کے ساتھ ’بہت اچھے تعلقات‘ ہیں اور دونوں فریق رواں سال کے شروع میں کئی ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے کو برقرار رکھنا چاہیں گے۔
ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے اسی بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ چین کی جانب سے پیش کردہ اعداد وشمار کے بارے میں تصدیق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس بارے میں بہت ساری عوامی رپورٹنگ ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہیں۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے مقابلے کیلئے متحد ہونا ضروری ہے، چین کا امریکا کو پیغام
اس ضمن میں رابرٹ او برائن نے کہا کہ آپ کو ان خبروں تک رسائی حاصل ہوگئی جو چینی سوشل میڈیا سے آرہی ہیں، ہمارے پاس اس تعداد میں سے کسی کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔
واضح رہے گزشتہ چند دنوں سے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا کو ’چینی وائرس‘ قرار دینے پر فرانس میں چین کے سفارتخانے نے کہا تھا کہ دراصل یہ وائرس امریکا سے شروع ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: چین کا سرکاری دفاتر میں امریکی ساختہ ٹیکنالوجی پر پابندی کا فیصلہ
چینی سفارتخانے نے سوال اٹھایا تھا کہ ’گزشتہ برس ستمبر میں (امریکا) میں شروع ہونے والے فلو کی وجہ سے 20 ہزار اموات میں کتنے مریض کورونا وائرس کے تھے؟‘
اس سے قبل اتوار کے روز امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ چین سے ’تھوڑا سا پریشان‘ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’انہیں ہمیں (وائرس) کے بارے میں بتانا چاہیے تھا‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال کے اختتام پر چین کے صوبے ہوبے کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جبکہ چین کی جانب سے وائرس پر قابو پانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جہاں ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار سے زائد جبکہ متاثرین کی تعداد 80 ہزار سے زائد ہے۔
کورونا وائرس کے نئے مرکز اور دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ملک امریکا میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ریکارڈ 884 ہلاکتیں ہونے کے بعد وہاں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 5 ہزار سے زائد ہوگئی جب کہ وہاں ایک ہی دن میں 25 افراد وبا کا شکار بھی بنے۔
دوسری جانب امریکا میں ہلاکتوں میں مسلسل اضافے کے بعد ماہرین نے نئے اندازے لگائے ہیں اور بتایا ہے کہ اگر اموات کی شرح یوں ہی جاری رہی تو صرف امریکا میں ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار تک جا سکتی ہے۔