کورونا وائرس چھینک یا کھانسی سے 27 فٹ تک سفر کرسکتا ہے، تحقیق
نئے نوول کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ کھانسی یا چھینکنے والے فرد سے کم از کم 6 فٹ دور رہنا چاہیے۔
مگر ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ فاصلہ کم ہے اور لوگوں کو کسی متاثرہ فرد سے اس سے بھی زیادہ دور کھڑا ہونا چاہیے۔
امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کی تحقیق میں کہا گیا کہ نئے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے دیا بھر میں سماجی فاصلے کے اقدامات کیے جارہے ہیں مگر یہ ناکافی ہیں۔
تحقیق کے مطابق کھانسی یا چھینک سے بننے والے گیس کے بادل وائرس کے ذرات کو 8 میٹر دور تک لے جاسکتے ہیں۔
جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ عالمی ادارہ صحت اور امریکا کے ادارے سی ڈی سی کی گائیلائنز 1930 کی دہائی کے فرسودہ ماڈلز پر مبنی ہیں، جن میں بتایا گیا تھا کہ کھانسی، چھینک یا سانس سے گیس کے بادل کیسے بنتے ہیں۔
ایم آئی ٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر لیڈیا بوراویبا نے خبردار کیا ہے کہ منہ سے خارج ہونے والے ہر قسم کے ذرات 23 سے 27 فٹ یا 7 سے 8 میٹر تک جراثیموں کو لے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ گائیڈلائنز ہر نظرثانی کی ضرورت ہے خصوصاً طبی ورکرز کے لیے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ پوری رفتار سے خارج ہونے والے ذصرات فی سیکنڈ 33 سے 100 فٹ تک جاسکتے ہیں اور اس وقت استعمال ہونے والے سرجیک اور این 95 ماسکس پر اس کے اثرات کو جانچا نہیں گیا ہے۔
محقق کے مطابق یہ خیال کے ذرات ایک غیرمرئی دیوار سے ٹکرا کر رک جائیں گے اور ہم محفوظ ہوجائیں گے، یہ شواہد پر مبنی نہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ 'گیس والے بادل' کھانسی، چھینک یا سانس کے دوران خارج ہونے والے ہر حجم کے ذرات کو آگے بڑھاتے ہیں اور کہنی سے منہ ڈھانپ کر چھینکنے یا کھانسی سے ان کو جزوی طور پر روکنا ممکن ہے۔
یقیناً 6 فٹ اور 27 فٹ میں بہت زیادہ فرق ہے اور کسی عوامی مقام پر ہر ایک کے لیے لگ بھگ 30 فٹ کی دوری سے کھرے ہونا بہت مشکل ہے، بلکہ اکثر کے لیے تو 6 فٹ بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ذرات ہوا میں کئی گھنٹے تک موجود رہ سکتے ہیں بلکہ مخصوص حالات میں ان کی زندگی میں کئی گنا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔
یہ سائنسدان کئی سال سے کھانسی اور چھینک کے اثرات پر تحقیق کررہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ذرات مختلف اشیا کی سطح کو آلودہ کرسکتے ہیں جبکہ ہوا میں گھنٹوں تک ایک جگہ رکے رہ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں وبا کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں مگر اس کے تیزی سے پھیلائو سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ذرات اس میں کردار ادا کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ 11 مارچ کو عالمی ادارہ صحت نے نئے نوول کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا تھا۔
کورونا وائرس اس وقت بھی کسی فرد کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے جب وہ کسی ایسی سطح یا چیز کو چھوئیں جس میں وائرس والے ذرات موجود ہوں اور اس کے بعد ہاتھوں سے منہ، ناک یا آنکھوں کو چھولیں۔
وائرس کی کسی چیز کی سطح پر زندگی کا انحصار مختلف عناصر جیسے ارگرد کا درجہ حرارت، نمی اور سطح کی ٹائپ پر ہوتا ہے۔
مارچ میں ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس مختلف اشیا کی سطح اور ہوا میں 3 گھنٹے سے 3 دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔
نیشنل انسٹیٹوٹس آف ہیلتھ (این آئی ایچ)، پرنسٹن یونیورسٹی اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وائرس تانبے پر 4 گھنٹے، گتے پر ایک دن ، پلاسٹک اور اسٹین لیس اسٹیل پر 3 دن تک زندہ رہ سکتا ہے جبکہ ہوا میں بھی یہ 3 گھنٹے تک موجود رہ سکتا ہے۔
محققین نے مختلف اشیا کی سطح پر اس نئے کورونا وائرس کی زندگی کا موازنہ سارس کورونا وائرس سے کیا اور دریافت کیا کہ دونوں کورونا وائرسز کی زندگی اسٹین لیس اسٹیل اور پولی پروپلین یعنی پلاسٹک کی ایک قسم جو کھلونوں سے لے کر لگ بھگ ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے، پر سب سے زیادہ لمبی ہوتی ہے۔
دونوں وائرسز پلاسٹک پر 3 دن تک زندہ رہ سکتے ہیں اور اسٹیل پر بھی نوول کورونا وائرس 3 دن تک موجود رہ سکتا ہے۔
گتے پر یہ نیا کورونا وائرس سارس کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتا ہے یعنی 24 گھنٹے، جبکہ سارس کی زندگی 8 گھنٹے کی ہوتی ہے۔
نتائج سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ براہ راست ایک سے دوسرے انسان کے ساتھ ساتھ یہ وائرس آلودہ اشیا اور ہوا کے ذریعے بھی منتقل ہوسکتا ہے۔