چوہدری شوگر ملز کیس: ریفرنس دائر ہونے تک نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ
لاہور کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھتیجے یوسف عباس کو چوہدری شوگر ملز کیس کی سماعت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے سے اس وقت تک استثنٰی دے دیا جب تک قومی احتساب بیورو (نیب) ریفرنس دائر نہ کردے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یوسف عباس سے اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ سماعت میں پیش ہو کر حاضری سے مستقل استثنٰی کی درخواست کی۔
اس سے قبل نواز شریف کو عدالت کی اجازت سے علاج کے لیے لندن میں مقیم ہونے کی وجہ سے طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنٰی دیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو نیب کی جانب سے ریفرنس فائل کیے جانے تک ٹرائل کورٹ میں سماعت کے دوران حاضری سے استثنیٰ مل چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف، مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ
سماعت میں ایڈووکیٹ امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ نواز شریف اب بھی لندن میں موجود ہیں جہاں ڈاکٹرز ان کا علاج کررہے ہیں اور انہیں سفر کی اجازت نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیب بھی اب تک اس کیس میں نواز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں ناکام رہا ہے۔
لہٰذا انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ نیب کی جانب سے ریفرنس دائر کیے جانے تک دونوں ملزمان نواز شریف اور یوسف عباس کو حاضری سے استثنٰی دیا جائے۔
احتساب عدالت کے جج امیر محمد خان نے درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو ریفرنس دائر ہونے کے بعد طلب کیا جائے گا۔
چوہدری شوگر ملز کیس
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش
بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔
اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔
جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز ضمانت پر رہا
جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔
8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔
جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔
18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور
بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوچکی ہے اور آخری مرتبہ جب 25 اکتوبر کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو 8 نومبر تک ان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کی گئی تھی۔
6 نومبر کو لاہور کی احتساب عدالت سے رہائی کی روبکار جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔