کیا بچے کورونا وائرس کو آگے پھیلانے میں کردار ادا کررہے ہیں؟
بچوں میں نئے نوول کورونا وائرس کی علامات کی شدت بہت کم ہوتی ہے اور کیسز کی تشخیص بالغ افراد کے مقابلے میں بہت مشکل ہوسکتی ہے۔
یہ بات چین میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
مشرقی صوبے زیجیانگ میں بچوں کے 36 کیسز پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 10 کیسز میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، جبکہ 7 میں تنفس کی علامات معتدل تھی۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے دی لانسیٹ انفیکشیز میں شائع ہوئے۔
اس کے علاوہ رواں ماہ جریدے دی نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق کے نتائج میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی۔
ووہان میں کووڈ 19 کا شکار ہونے والے 171 بچوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ 15 فیصد کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا فوری طور پر علامات نہیں تھیں۔
12 فیصد میں نمونیا میڈیکل اسکین میں نظر آیا مگر انفیکشن کی علامات نہیں تھیں۔
زنجیانگ میں ہونے والی نئی تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بچوں میں اتنی بڑی تعداد میں علامات ظاہر نہ ہونے سے عندیہ ملتا ہے کہ ان میں مرض کی تشخیص آسان نہیں، جو کہ خطرناک صورتحال کا باعث بھی بن سکتا ہے کیونکہ وہ وائرس آگے پھیلا سکتے ہیں۔
چین نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ اس نے مقامی طور پر وائرس کے پھیلائو کو روک لیا ہے اور اب نئے کیسز ایسے افراد میں سامنے آرہے ہیں جو بیرون ملک سے واپس آئے۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس نئی تحقیق سے وائرس کے پھیلائو میں بچوں کے ممکنہ کردار کا اشارہ ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج سے جو سب سے اہم بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ بچوں میں وائرس کا شبہ تو ہوتا ہے مگر اکثر وہ زیادہ بیمار نہیں ہوتے، جس سے یہ امکان قوی ہوتا ہے کہ وہ وائرس کے پھیلائو میں سہولت کار بن جاتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران ایک سے 16 سال کے بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو کہ جنوری کے وسط سے فروری کے آخر تک بیمار ہوئے تھے۔
محققین نے دریافت کیا کہ نصف کے قریب کیسز کی شدت معمولی جبکہ باقی کی معتدل تھی، یہ سب ہسپتال میں رہنے کے بعد صحت یاب ہوگئے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بالغ مریضوں کے برعکس بچوں میں بخار، کھانسی اور نمونیا جیسی علامات کی شدت بہت کم تھی اور محققین کے مطابق یہ نیا وائرس بچوں کی بالائی سانس کی نالی پر زیادہ اثر نہیں کرتا، یہ متعدی وائرس بچوں میں چھپا رہتا ہے۔
امریکا کی وینڈربلیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق کے مطابق 2003 میں چین سے پھیلنے والے سارس کے شکار افراد میں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد ڈرامائی حد تک کم تھی اور 13 سال سے کم عمر بچوں میں اس کی شدید علامات بھی زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوئی تھیں۔
اور ایسا ممکن ہے کیونکہ بائیولوجی کے اصولوں کے مطابق بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں میں نوول کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوسکتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے خلیات اس وائرس کے لیے زیادہ اچھے میزبان نہیں ہوتے اور کورونا وائرس کے لیے اپنی نقل بنانے اور دوسرے افراد میں منتقل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
محققین نے مزید بتایا کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر ان میں علامات بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ شدید نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں طبی نگہداشت کی کم ضرورت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رویہ وائرس والے دیگر امراض میں بھی نظر آتا ہے کیونکہ ارتقائی طور پر ہم اس طرح کے حالات سے متاثر ہونے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں اور بڑے ہونے پر مدافعتی نظام زیادہ پھیلتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکا میں سیزنل فلو کے دوران متعدد بچے انفلوائنزا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس مرض سے بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کی اموات بہت کم ہوتی ہیں۔
طبی ماہرین کے خیال میں بچوں کا ماحول ممکنہ طور پر اس حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے، یعنی بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں عام کورونا وائرسز کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے، جس سے ان کے اندر ایک مخصوص قسم کی مدافعتی طاقت پیدا ہوسکتی ہے مگر وہ زندگی بھر ساتھ نہیں رہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر بچے بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور بیماری سے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں جبکہ ویکسینیشن کا عمل بھی بچوں میں اپ ٹو ڈیٹ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زندگی کے معمولات لوگوں کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جیسے ہاتھوں کی اچھی صفائی مددگار ہوتی ہے، صحت بخش غذا کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، چاہے وائرس کوئی بھی ہو، مگر اچھے معمولات صحت مند رکھ سکتے ہیں۔