ایشیائی ممالک میں کورونا کے کم کیسز کی وجہ کیا ہے؟
ایشیا سے شروع ہونے والی وبا کورونا وائرس کا نیا مرکز امریکا بن چکا ہے جہاں 27 مارچ کی صبح تک مریضوں کی تعداد 85 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔
امریکا سے قبل کورونا وائرس کا مرکز یورپ تھا اور یورپ اب بھی اس وبا کا دوسرا بڑا مرکز ہے، جہاں کورونا کے مجموعی کیسز امریکا اور ایشیا سے زیادہ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت، امریکی صحت سے متعلق اداروں اور دیگر ممالک کی حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے کیسز کے ہر وقت اپڈیٹ رہنے والے آن لائن میپ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کے 5 لاکھ 37 ہزار سے زائد کیسز میں سے 3 لاکھ سے زائد کیسز یورپ میں رپورٹ ہوئے۔
یورپ میں سب سے زیادہ کیسز اٹلی میں 81 ہزار کے قریب، دوسرے نمبر پر اسپین میں 58 ہزار کے قریب، تیسرے نمبر پر جرمنی 47 ہزار سے زائد ، چوتھے نمبر پر فرانس 30 ہزار کے قریب اور پانچویں نمبر پر برطانیہ 12 ہزار کے قریب ہیں۔
اسی طرح 27 مارچ کی صبح تک کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں 24 ہزار 110 میں سے نصف سے زیادہ ہلاکتیں یورپ میں ہوچکی تھیں، جہاں ہلاکتوں کی تعداد 18 ہزار تک ہے۔
اعداد و شمار کے حساب سے اس وقت بھی یورپ ہی کورونا وائرس کا مرکز ہے اور مجموعی طور پر یورپ کے ایک درجن سے کم ممالک ہی اس وبا سے زیادہ متاثر ہیں۔
تاہم اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ خطرے سے دوچار ایک درجن یورپی ممالک کے مقابلے امریکا کورونا وائرس کا بڑا اور نیا مرکز ہے، جہاں 3 دن میں کورونا کے 35 ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکا میں مزید تیزی سے کیس سامنے آئیں اور اس کی ایک وجہ امریکا میں ٹیسٹ کے عمل کو تیز کیا جانا بھی ہے، جہاں گزشتہ ہفتے سے کورونا کے ٹیسٹ میں خاطر خواہ تیزی دیکھی گئی، جس کے بعد ہی نئے کیسز بھی تیزی سے آنا شروع ہوئے۔
لیکن یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک کی طرح ایشیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں کمی کیوں دیکھی جا رہی ہے اور حیران کن طور پر چین اور جنوبی کوریا کے بعد ایران میں بھی نئے کیسز کی رفتار سست دیکھی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین: کورونا وائرس کے باعث بند تعلیمی ادارے کھلنے لگے، کاروبار زندگی بحال
اگرچہ فوری طور پر ماہرین نے ایشیا میں کورونا کیسز کی کمی کے حوالے سے واضح طور پر کچھ نہیں کہا، تاہم خیال کیا جا رہاہے کہ ایشیا میں ٹیسٹ کی رفتار سست ہونے سمیت خطے کے موسم کا بھی کردار ہو سکتا ہے، چوں کہ اب تک سامنے آنے والی متعدد تحقیقات میں بتایا جا چکا ہے کہ گرم علاقوں میں کورونا کے پھیلاؤ میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔
کن ایشیائی ممالک میں کورونا پھیلنے کی رفتار کم ہے
کورونا وائرس کے اعداد و شمار دینے والے آن لائن میپ سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے ہفتے کے آغاز تک ایران یورپی ممالک اٹلی اور اسپین کے بعد کورونا سے متاثر سب سے بڑا ملک تھا مگر 27 مارچ کی صبح تک ایران 8 ویں نمبر پر آگیا تھا اور ایران سے پیچھے رہنے والے امریکا، جرمنی اور فرانس بھی اس سے آگے نکل چکے تھے۔
ایران
اگر ایک ہفتے سے قبل کے حالات کا جائزہ لیا جاتو ایران اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کے حوالے سے اسپین سے بھی آگے تھا اور ایک وقت تھا جب ایران وبا کے مریضوں کے حوالے سے چین کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔
اگرچہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ایران سے نئے کیسز نہ آنے کی کیا وجوہات ہیں، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ وہاں ٹیسٹ کا عمل سست روی کا شکار ہونے سمیت وہاں کا گرم موسم بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتا ہے۔
ایران میں 27 مارچ کی صبح تک مریضوں کی تعداد 29 ہزار سے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد 2200 سے زائد تھی اور یہ تعداد ایشیا میں چین کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
چین
چین سے تو رواں ماہ مارچ کے آغاز میں ہی کورونا وائرس کے نئے کیسز آنا کم ہوگئے تھے اور پھر ایک ایسا دن بھی آیا جب کہ کورونا وائرس کے مرکز سمجھے جانے والے چینی شہر سے ایک بھی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا جس کے بعد ووہان سے لاک ڈاؤن ہٹانے کا آغاز کردیا گیا اور اس وقت جب کہ پوری دنیا لاک ڈاؤن ہے، وہیں چین معمولات زندگی کی جانب لوٹ رہا ہے۔
چین میں اب تک کورونا سے 81 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں اور وہاں ہلاکتوں کی تعداد 3100 سے کچھ زیادہ ہے جب کہ وہاں 95 فیصد تک مریض صحت یاب ہوچکےہیں۔
جنوبی کوریا
چین کے بعد ابتدائی طور پر جنوبی کوریا میں ہی کورونا کے کیسز سامنے آئے تھے اور فروری کے آغاز میں ہی جنوبی کوریا و ایران میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے تھے، تاہم بعد ازاں جنوبی کوریا نے حیران کن طور وبا پر قابو پالیا، یہاں تک اس نے انتہائی کم عرصے میں سب سے زیادہ ٹیسٹ بھی کیے۔
جنوبی کوریا نے وبا کے پھیلنے کے آغاز میں ہی جزوی لاک ڈاؤن کرنے سمیت مشکوک افراد کے ٹیسٹ کیے اور ملک میں داخل ہونے والے ہر بیرون ملک سے آنے والے شخص کی ٹیکنالوجی کے ذریعے نگرانی کرکے ہر کسی کو 15 دن تک گھر تک محدود کردیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی کوریا نے چین سے بھی زیادہ تیزی سے وبا پر قابو پایا۔
جنوبی کوریا میں 27 مارچ کی صبح تک کورونا کے مریضوں کی تعداد 10 ہزار سے بھی کم تھی اور وہاں ہلاکتوں کی تعداد صرف 139 تھی۔
تائیوان
اگرچہ تائیوان کورونا وائرس کے مرکز سمجھے جانے والے چین کی خودمختار ریاست ہے، تاہم حیران کن طور پر وہاں چین کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بھی کم کیسز رپورٹ ہوئے۔
کورونا وائرس سے سب سے زیادہ چین کا صوبے ہوبے متاثر ہوا تھا، تاہم چین کے دیگر صوبوں میں بھی کورونا کے بہت سارے کیسز سامنے آئے اور یہاں تک چین کے ماتحت ہانگ کانگ میں بھی 600 کے قریب کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے لیکن اس کے بر عکس تائیوان میں صرف 267 کیسز سامنے آئے۔
تائیوان نے بھی کورونا کے سامنے آتے ہی حفاظتی انتظام تیز کرتے ہوئے بیماری کی علامات والے افراد کو گھروں تک محدود کردیا جب کہ مشکوک افراد کے بروقت ٹیسٹ بھی کیے۔
علاوہ ازیں تائیوان نے چینی ماڈل سمیت جنوبی کوریا کے ماڈل کو بھی اپنایا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ بیرون ممالک سے آنے والا ہر شخص 15 دن تک گھر میں محدود رہے۔
اس ضمن میں تائیوان نے بھی ہر شخص کی ٹیکنالوجی کے ذریعے نگرانی کی اور ہر شخص پر ان کے موبائل فون کی مدد سے نظر رکھی اور جس بھی شخص کا موبائل 15 منٹ سے زیادہ بند ہوتا تو اسے سخت وارننگ دینے سمیت دوبارہ ایسا کرنے پر گرفتاری کا خوف بھی دیا گیا، جس وجہ سے وہاں سے کورونا کے کیسز آنا کم ہوئے۔
جاپان
کورونا کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے، ایسے میں جاپانی لوگ سالانہ چیری بلاسم فیسٹیول میں بھی دیکھے گئے اور تو اور جاپانی حکومت نے عالمی تنقید کے باوجود اولمپکس کا بھی انعقاد کردیا تھا، تاہم بعد ازاں اسے ملتوی کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: چین کے بعد جنوبی کوریا نے کورونا پر کیسے قابو پایا؟
جاپان میں بھی کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار دیگر ایشیائی ممالک کی طرح کم ہے، اور وہاں بھی 27 مارچ کی صبح تک کورونا کے صرف 1387 کیس سامنے آئے تھے۔
جاپان میں بھی حفاظتی اقدامات کے پیش نظر لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات کی گئی ہیں، جب کہ وہاں بھی ٹیسٹ کی رفتار سست ہونے کی خبریں سامنے آ رہی ہے، تاہم مجموعی طور پر جاپانی حکومت کورونا کے حوالے سے اتنی پریشان دکھائی نہیں دے رہی۔
پاکستان
بدقسمتی سے کورونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کا شمار ایشیا کے ان ممالک میں ہے جہاں ایران کے بعد تیزی سے کیسز سامنے آئے اور گزشتہ ہفتے پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کے سامنے آنے میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا۔
پاکستان میں بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں کہیں جزوی تو کہیں مکمل لاک ڈاؤن ہے جب کہ مذہبی اجتماعات پر پابندی سمیت ٹرانسپورٹ و کاروباری اداروں کو بھی بند کردیا گیا ہے، تاہم وہاں بھی ٹیسٹ رفتار سست ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔
پاکستان میں 27 مارچ کی دوپہر تک مریضوں کی تعداد بڑھ کر 1257 تک جا پہنچی تھی اور وہاں 9 اموات ہوچکی تھیں۔
پاکستان میں ایران کے بعد خطے میں تیزی سے نئے کیس سامنے آ رہے ہیں اور اس کی وجہ ماہرین ٹیسٹ عمل کی تیزی بھی قرار دیتے ہیں، پاکستان میں اپنے قریبی ممالک، افغانستان، بھارت وبنگلہ دیش سے زیادہ کیسز ہیں، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارت میں اس سے زیادہ کیسز سامنے آئیں گے۔
بھارت
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت سے بھی کورونا وائرس کے مریضوں کے آنے کا سلسلہ کافی سست ہے اور وہاں پر 27 مارچ کی صبح تک کورونا کے 753 مریضوں کی تصدیق کی گئی تھی۔
بھارت میں جہاں کورونا کے نئے کیسز آنے کی رفتار سست ہے، وہاں اس مرض سے ہلاکتوں کی رفتار پاکستان سے بھی تیز ہے اور وہاں 27 مارچ تک کورونا وائرس کے باعث 20 افراد کی موت ہوچکی تھی۔
امریکی میگزین فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں کورونا کے کیسز کے کم سامنے آنے کی وجہ وہاں پر ٹیسٹ میں سستی بھی ہے، کیوں کہ بھارت میں 20 مئی تک صرف 15 ہزار کے قریب افراد کا ٹیسٹ کیا جا چکا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اگر ہر 15 ہزار افراد میں سے یوں ہی 753 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی تو بھارت کے لیے حالات کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔
بھارت نے بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے اور تمام کاروباری سرگرمیاں اور ٹرانسپورٹ کو بھی بند کردیا ہے۔
کم کیسز والے ایشیائی ملک
کورونا وائرس کے مریضوں کے تازہ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وبا سب سے زیادہ تیزی سے یورپی ممالک اور پھر امریکا میں پھیل رہی ہے،جب کہ اس کی رفتار ایشیائی ممالک سمیت افریقی ممالک میں تاحال سست ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی تاحال کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کو ریکارڈ نہیں کیا گیا، یہاں تک وہاں کے خانہ جنگی کے شکار ممالک شام و لیبیا جیسے ممالک میں بھی کورونا کے کیسز دیگر ممالک کے مقابلے کم آ رہے ہیں۔
اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے بھی متعدد ممالک میں کورونا کے کیسز کی شرح انتہائی کم ہے، ایسے ممالک میں چین، بھارت، روس، انڈونیشیا و تھائی لینڈ جیسے مملاک سے زمینی سرحدی رکھنے والا ممالک لاؤس، منگولیا، شمالی تیموریہ و میانمار جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔
لاؤس میں 27 مارچ کی صبح تک کورونا کے محض 6 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی جب کہ شمالی تیمور میں صرف ایک کیس ہی سامنے آ سکا ہے، اسی طرح میانمار میں بھی محض 6 کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ منگولیا میں صرف 10 کیسز کی تصدیق کی گئی ہے۔
ان جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی طرح جنوبی ایشیائی ممالک نیپال و بھوٹان میں بھی 27 مارچ کی صبح تک تین تین کیسز سامنے آئے تھے جب کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک افغانستان، بنگلہ دیش و سری لنکا میں بھی پاکستان و بھارت کی طرح کیسز میں کچھ تیزی دیکھی جا رہی ہے تاہم پھر بھی ان ممالک میں کیسز کی رفتار یورپی ممالک سے کہیں کم ہے۔