• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

نیا کورونا وائرس مردوں کے لیے زیادہ جان لیوا کیوں؟

شائع March 26, 2020
— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

یہ تو اب تک بیشتر افراد کو معلوم ہوچکا ہے کہ نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 زیادہ عمر کے افراد یا پہلے سے کسی بیماری کے شکار افراد کے لیے زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ نوجوان یا بچے اس کا شکار نہیں ہوتے درحقیقت اس بیماری کا خطرہ سب کے لیے یکساں ہی ہوتا ہے۔

مگر اب ایسا بھی نظر آرہا ہے کہ یہ بیماری خواتین کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ متاثر کررہی ہے اور ان میں اموات کی شرح زیادہ ہے۔

ایسا پہلے چین میں دیکھنے میں آیا تھا جہاں ایک سائنسی جائزے میں دریافت کیا گیا کہ مردوں میں اموات کی شرح 2.8 فیصد اور خواتین میں 1.7 فیصد رہی۔

اب یہی فرق فرانس، جرمنی، ایران، اٹلی، جنوبی کوریا اور اسپین میں بھی نظر آرہا ہے۔

اٹلی (اس ملک میں اب تک دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں) میں 7 ہزار سے زائد ہلاکتوں میں 71 فیصد مرد ہیں جبکہ اسپین کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ مردوں کی شرح اموات خواتین کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے۔

تو آخر یہ وبا مردوں کو زیادہ متاثر کیوں کررہی ہے؟

لندن کالج یونیورسٹی کے سینٹر فار جینیڈر اینڈ گلوبل ہیلتھ کی ڈائریکٹر پروفیسر سارہ ہاکس کا کہنا ہے 'اس کا ایماندارانہ جواب تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے'۔

اس سے پہلے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ تمباکو نوشی اس فرق کی وجہ ہوسکتی ہے۔

چین میں تمباکو نوشی کرنے والے مردوں کی شرح 50 فیصد جبکہ خواتین کی محض 2 فیصد ہے، تو پھیپھڑوں کی صحت کا فرق بھی مردوں کے لیے کووڈ 19 کو زیادہ بدتر بنانے کی وجہ ہوسکتا ہے۔

اس خیال کی تصدیق گزشتہ ماہ ایک طبی تحقیق میں بھی کی گئی جس میں دریافت کیا گیا کہ آئی سی یو میں زیرعلاج یا ہلاک ہونے والے 26 فیصد افراد تمباکو نوشی کے عادی تھے۔

ایسا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ تمباکو نوشی وائرس سے متاثر ہونے کا ذریعہ بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے عادی افراد اپنے ہونٹوں کو زیادہ چھوتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آلودہ سگریٹ شیئر بھی کرلیں۔

دوسری جانب مردوں اور خواتین کے رویوں میں فرق بھی ایک عنصر ہوسکتا ہے۔

کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ مردوں میں ذاتی صفائی کا رجحان جیسے ہاتھ دھونے کا امکان کم ہوتا ہے، اگر ہاتھ دھوتے ہیں تو صابن استعمال نہیں کرتے، طبی امداد کے لیے رجوع کرنے سے گریز کرتے ہیں اور حکومتی طبی مشوروں کو نظرانداز کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ امراض کے لیے زیادہ آسان ہدف بن جاتے ہیں۔

مگر ماہرین میں یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ بنیادی حیاتیاتی عناصر بھی اس میں کردار ادا کررہے ہیں۔

اگرچہ بیشتر ممالک میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی ہے مگر اٹلی میں 28 فیصد مرد اور 19 فیصد خواتین تمباکو نوشی کے عادی ہیں، مگر پھر بھی مردوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

امریکا کے جونز ہوپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی پروفیسر سابرا کلین کے مطابق اٹلی، چین، اسپین ہر جگہ ہم نے مردوں میں اموات کی شرح کو زیادہ دیکھا اور ہم نے متعدد ممالک اور ثقافتوں کا جائزہ لیا۔

انہوں نے کہا 'جب میں یہ دیکھتی ہوں، تو سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ کچھ ایسا ہے جو دنیا بھر میں اس کی وجہ بنتا ہے، میرا نہیں خیال کہ تمباکو نوشی بنیادی عنصر ہے'۔

ان کی ایک سابقہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مردوں میں مختلف اقسام کے انفیکشنز جیسے ہیپا ٹائٹس سی اور ایچ آئی وی کے خلاف اینٹی وائرل مدافعتی نظام خواتین کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، جو ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرسز کے حوالے سے بھی درست ہو، تاہم اب تک اس پر تحقیق نہیں ہوئی۔

پروفیسر سابرا کے مطابق ممکنہ طور پر مردوں کا مدافعتی نظام وائرس کے حملے کی ابتدا پر مناسب ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔

اس حوالے سے ہارمونز بھی کردار ادا کرتے ہیں، ایسٹروجن نامی ہارمون مدافعتی خلیات میں اینٹی وائرل ردعمل کو بڑھاتا ہے، جبکہ بیشتر جینز جو مدافعتی نظام کو ریگولیٹ کرتے ہیں وہ ایکس کروموسوم کی مدد سے متحرک ہوتے ہیں جو مردوں میں ایک اور خواتین میں 2 ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں کووڈ 19 کے حوالے سے اینٹی باڈی سرویز میں اس صنفی امتیازی ردعمل کے بارے میں مزید معلومات سامنے آسکتی ہے اور پروفیسر سابرا کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی چینی ٹیموں کے مقالوں پر نظرثانی کرچکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حیاتیات، طرز زندگی اور رویے سب کردار ادا کرتے ہیں، مگر اس کی تصدیق بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی دستیابی سے ممکن ہوگی۔

اب تک 20 میں سے صرف 6 ممالک نے کیسوں کی تعداد اور اموات سے متعلق تمام تفصیلات کو ظاہر کیا ہے جن میں برطانیہ اور امریکا شامل نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024