وزیراعظم کورونا وائرس سے متعلق اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں، بلاول
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کورونا وائرس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے خیالات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وائرس کے خلاف متحد ہو کر لڑنا پڑے گا جس کے لیے ملک کے وزیراعظم کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'وزیراعظم اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں اور ہم سب مل کر اس بیماری کا مقابلہ کریں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آپ اس ملک کے وزیراعظم ہیں اور وزیراعظم کا کام ہوتا ہے جب ایک قوم اور ملک عالمی یا قومی بحران کا مقابلہ کررہا ہوتو ان کا وزیراعظم قائدانہ کردار ادا کرے'۔
مزید پڑھیں:کورونا وائرس کی جنگ صرف قوم جیت سکتی ہے، وزیراعظم
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'وفاق کی قیادت کریں اور اپنے ملک میں اتحاد قائم کریں، یہ آپ کی ذمہ داری ہے، جب آپ قیادت کررہے ہیں اور اتفاق رائے پیدا کررہے ہیں تو آپ کا کام ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم مل کر اس وائرس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ شاید وزیراعظم کو درست طریقے سے آگاہ نہیں کیا جارہا ہے اور جو اعداد وشمار ان کے سامنے رکھے جارہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں ان میں فرق ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں اموات ہورہی ہیں اور خدانخواستہ پاکستان میں بھی اسی شرح سے متاثر یا اموات بھی ہوسکتی ہیں'۔
کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جو ممالک اس بیماری کا مقابلہ کررہے ہیں وہاں یہ وائرس بلاتفریق حملہ کررہا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان ممالک جن کا صحت کا نظام ہم سے بہت جدید ہے جیسا کہ چین، ایران، اٹلی اور اسپین کا صحت کا نظام کورونا وائرس کے فوج کے نیچے ڈوب رہا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں:ملک میں نئے کیسز کے ساتھ کورونا متاثرین کی تعداد 1026 ہوگئی
حکومت کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کے اعداد شمار سب کے سامنے ہیں اور ہسپتالوں کی بات کی جائے تو امریکا میں ہر ایک ہزار افراد کو 2.8 بستر، اسپین میں 3 بستر، اٹلی میں 2.4 اور چین میں 4.2 بستر جبکہ پاکستان میں 0.6 بستر ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہمارے ملک میں یہ بیماری اسی تیزی سے پھیلتی ہے اور ہم سنجیدگی اور قوم کی حیثیت سے اس کو پھیلنے سے نہیں روکتے ہیں تو نہ صرف ہمارا صحت کا نظام ڈوب جائے گا بلکہ ہم انتظام نہیں کرپائیں گے اس لیے ہم زور دے رہے ہیں کہ وفاق قیادت کرے'۔
انہوں نے کہا کہ 'وفاق پورے ملک میں وہ اقدامات کرے جو اس وائرس کو کم کرسکتے ہین، متاثرین کا سراغ لگاسکتے ہیں، اس دوران ہم اپنے ہسپتالوں کی تعداد بڑھائیں، تشخیصی کٹس کی تعداد بڑھائیں، ایک دن میں ٹیسٹ کرنے کی تعداد بڑھائیں، ڈاکٹر اور نرسز کی تربیت کریں'۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بیماری کے خلاف تیاری کریں تاکہ ہم اس کا مقابلہ کرسکیں'۔
وزیراعظم عمران خان کے اعداد وشمار سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے کیسز بہت کم ہیں جو حقائق پر مبنی نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان مقامی سطح پر متاثر ہیں، سندھ میں 148 کیسز جن میں سے 94 مقامی ہیں جو خاص کر کراچی میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ 64 فیصد کیسز مقامی ہیں'۔
چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ 'ان اعداد وشمار کو سامنے رکھ کر سوچنا چاہیے کہ پاکستان کیا اقدامات کررہا ہے اور کیا یہ اقدامات کافی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اور زیادہ سنجیدگی سے اس مسئلے کا مقابلہ کرنا پڑے گا، آئسولیشن اور قرنطینہ کی گنجائش بڑھانے، ہسپتالوں میں بستروں میں اضافہ، ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تعداد میں اضافے پر توجہ دینا چاہیے'۔
مزید پڑھیں:معاشی پیکیج: پیٹرولیم مصنوعات اگلے 3 ماہ میں مزید سستی ہوں گی، مشیر خزانہ
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس کے ساتھ ساتھ معیشت اور ریلیف پر توجہ دینا پڑے گی جو اس وقت مدد کے حق دار ہیں اور معاشی طور پر بھی کورونا وائرس کا مقابلہ کرسکیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں سب کو مل کر مشکل فیصلے لینے پڑیں گے اور کوئی لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہوگا جب ہم مل کرکام نہیں کرتے، میرا نہیں خیال کہ پنجاب کا لاک ڈاؤن فائدہ مند نہیں ہوسکے گا اگر اسلام آباد میں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا'۔
وزیراعظم کے معاشی پیکج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جیسے وزیراعظم نے معاشی پیکج کا اعلان کیا جس کے بعد اسٹاک مارکیٹ کا جو ردعمل آیا اس سے لگتا ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں'۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں لاک ڈاؤن کی مخالفت کی تھی اور گزشتہ روز سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم نے نیشنل سیکیورٹی کا اجلاس کیا تھا اور اس وقت محض کورونا کے 21 کیس تھے، لاک ڈاؤن تو اسی دن سے شروع ہو گیا تھا، اسکول، کالج بند کر دیے گئے اور لوگوں کے غیر ضروری اجتماع پر پابندی لگا دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی آخری قسم کرفیو ہے، کرفیو لگانے کے جو ہمارے معاشرے پر اثرات پڑیں گے ہم اس کو سوچ بھی نہیں سکتے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سی ایلیٹ طبقے کو دیکھ کر لیے جاتے ہیں، ہمارے تعلیمی اور عدالتی نظام کا بھی یہی حال ہے، کورونا وائرس کے پیش نظر بھی لاک ڈاؤن کو لے کر عمومی سوچ یہی ہے لیکن مکمل کرفیو لگانے سے نقصان امیر کو نہیں بلکہ کچی بستیوں میں رہنے والے غریبوں کو ہو گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے غریبوں کے بارے میں سوچنا ہے کہ وہ ان حالات میں کہاں سے اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے، اگر ہمارے معاشی حالات اٹلی اور چین جیسے ہوتے تو کرفیو لگانا آسان ہوتا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ اگر ہم کرفیو لگاتے ہیں تو کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہسپتال کام کیسے کریں گے، اس میں سپلائی کیسے آئے گی، اسٹاف کیسے کام کرے گا، ڈاکٹر اور نرس کے علاوہ پورا اسٹاف ہے جس کے بارے میں سوچنا ہے۔