میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 13 روز کی توسیع
لاہور کی احتساب عدالت نے غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 13 روز کی توسیع دے دی۔
سماعت کے آغاز میں جنگ جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو احتساب عدالت پہنچایا گیا اور انہیں ڈیوٹی جج جواد الحسن کے روبرو پیش کیا گیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن نے اپنا وکیل تبدیل کر لیا ہے اور ان کی جانب سے ایڈووکیٹ امجد پرویز دلائل دیں گے۔
دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر عاصم ممتاز نے عدالت کو بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن کو جو زمین فراہم کی گئی وہ غیرقانونی طور پر ٹرانسفر کی گئی اور لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے سابق وزیر اعلی پنجاب نواز شریف کے حکم پر زمین فراہم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایل ڈی اے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کا خیال نہیں رکھا گیا، انہیں زمین 3 مختلف جگہ پر الاٹ کی گئی تاہم انہوں نے غیرقانونی طور پر یہ زمین ایک جگہ پر الاٹ کروائی۔
جج نے نیب پراسیکیٹر کی سرزنش کرتے ہوئے ہدایت دی کہ قانون کے مطابق دلائل دیں سیاسی باتیں نہ کریں۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ’میر شکیل نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کر لیں اور اپنا جرم چھپانے کے لیے پلاٹ اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر منتقل کروائے۔
انہوں نے کہا کہ ایل ڈی اے نے نواز شریف کے کہنے پر 54 کنال اراضی کو ایک ہی بلاک بنانے کی سمری بنائی، استثنیٰ کے پہلے اور بعد کا لے آوٹ پلان منگوایا ہے کیونکہ استثنیٰ قواعد کے تحت نہ وزیراعلٰی اور نہ ہی ڈی جی ایل ڈی اے کو اس کا اختیار تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی مالک کی جتنی بھی زمین ہو اس کو 15 کنال سے زیادہ استثنیٰ پر پلاٹ نہیں دیے جاسکتے۔
نیب کے تفتیشی افسر حافظ اسد اللہ اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’1981 میں زمین حاصل کی گئی اور اس وقت کے سیکریٹری جاوید بخاری نے بیان دیا کہ نواز شریف نے خصوصی کیس کے طور ٹریٹ کرنے کا کہا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے نے سمری اور ریکارڈ لے کر تفصیلی بیان دینے کا کہا ہے، اور ان سے پوچھنا ہے کہ کیوں میر شکیل الرحمٰن کو پالیسی کے خلاف پلاٹ الاٹ کیے گئے جبکہ ملزم کو مختار عام پر 54 پلاٹ استثنیٰ پر لینے کا اختیار نہیں تھا۔
عدالت نے سوال کیا کہ ایل ڈی اے کو کب قبضہ ملا، ایل ڈی اے مالک بنے گا تو استثنیٰ ہو گی۔
مزید پڑھیں: میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف اہلیہ کی درخواست پر نیب سے جواب طلب
میر شکیل الرحمٰن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ہمایوں فیض رسول اس وقت کے ایل ڈی اے کے ڈائریکتر جنرل (ڈی جی) نیب میں پیش ہو چکے ہیں اور ان کے موکل کے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے بے بنیاد طور پر 26 مارچ کو دوبارہ ہمایوں فیض رسول کو طلب کیا گیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں، یہ کونسا قتل کا کیس ہے، جس میں ملزم سے آلہ قتل برآمد کروانا ہے۔
امجد پرویز بٹ نے کہا کہ ’نیب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا کیس سامنے آیا ہے جس میں چیئرمین نیب نے ذاتی طور پر میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ چیئرمین نیب نے اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی دھجیاں بکھیری ہیں، میر شکیل الرحمٰن تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کرچکے ہیں اور ان کو جب نیب نے بلایا وہ پیش بھی ہوئے۔
عدالت نے سوال کیا کہ جب استثنیٰ پالیسی کی بات آتی ہے تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ کس نے اس کو پلاٹ الاٹ کیے، کیا پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، کوئی پرائیوٹ ادارہ بھی پالیسی کے بغیر نہیں چلتا۔
امجد پرویز بٹ نے عدالت سے کہا کہ پالیسی، پالیسی ہوتی ہے قانون نہیں ہوتا جس پر عدالت نے ریمارکس دیے پالیسی پر بے شمار عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیب نے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف اراضی کیس میں نواز شریف کو طلب کرلیا
عدالت نے سوال کیا کہ ’کیا ایسی مثال موجود ہے کہ کسی کو ایل ڈی اے نے استثنیٰ دی ہو؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے‘۔
احتساب عدالت نے نیب کی جسمانی ریمانڈ لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا جسے بعد ازاں سناتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 13 روز کی توسیع کردی گئی اور انہیں دوبارہ 7 اپریل کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔
خیال رہے کہ نیب نے 12 مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کو 54 کینال اراضی سے متعلق 34 سال پرانے مقدمے میں گرفتار کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر ’غیر قانونی طریقے سے‘ اراضی اس وقت حاصل کی جب نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔
اس وقت عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کو 25 مارچ تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا جس کی مدت ختم ہونے پر آج نیب نے عدالت سے ان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی تھی۔