• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بھارت میں دکانداروں نے کورونا سے نمٹنے کا حل نکال لیا

شائع March 25, 2020
دکانداروں نے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے دائرے بنا دیے—فوٹو: ٹوئٹر
دکانداروں نے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے دائرے بنا دیے—فوٹو: ٹوئٹر

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میں کورونا وائرس سے بچنےکے لیے 24 مارچ سے 21 دن تک لاک ڈاؤن شروع کردیا گیا، اس سے قبل ملک میں 22 مارچ کو 14 گھنٹوں کا کرفیو نافذ کیا گیا تھا جب کہ 23 مارچ کو 80 اضلاع میں کرفیو لگایا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کرتے ہوئے تمام کاروباری مراکز، عوامی مقامات اور ٹرانسپورٹ کو بند رکھنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران سبزی، پھل، گوشت، راشن اور دودھ کے دکانوں کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی۔

اشیائے ضرورت اور اشیائے خورونوش کی دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت ملنے کے بعد خدشہ تھاکہ دکانوں پر لوگوں کی بھیڑ ہوگی، اس لیے وہاں کے دکانداروں نے حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے لوگوں میں فاصلہ رکھنے کا حل نکال لیا۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق ملک کے کئی شہروں سے سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی دکانداروں نے لوگوں میں فاصلہ رکھنے کا توڑ نکالتے ہوئے دکانوں کے باہر سرکل بنائے اور ان سرکلز میں 3 سے 4 فٹ کا فاصلہ رکھا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مرکزی حکومت کے ماتحت علاقے پدوچیری اور ریاست گجرات سے سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دکانداروں نے دکان کے باہر لوگوں میں فاصلہ رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے سرکل بنا رکھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی وبا: بھارت میں 21 روز کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ راشن اور دودھ کے دکانوں سمیت دیگر دکانوں کے باہر3 سے 4 فٹ کے فاصلے پر سرکل بنائے گئے ہیں، جہاں لوگوں کو کھڑا ہوکر اپنی باری کا انتطار کرنے کا کہا گیا۔

تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہےکہ اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے آنے والے لوگ ایک دوسرے سے فاصلے پر بنائے گئے مذکورہ دائروں میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور دکانوں میں اندر رش بھی نہیں ہو رہا اور لوگ حفاظتی اقدامات اپناتے ہوئے ایک دوسرے سے فاصلے پر بھی ہیں۔

ابتدائی طور پر حکومت نے مخصوص اضلاع میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا—فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا
ابتدائی طور پر حکومت نے مخصوص اضلاع میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا—فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا

مختلف شہروں میں دکانداروں کی جانب سے لوگوں میں فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے دائروں کے عمل کی سوشل میڈیا پر تعریف کی جا رہی ہے اور دیگر شہروں کے دکانداروں سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اس عمل کی پیروی کریں ۔

بھارت بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ کم سے کم ایک ارب 20 کروڑ لوگ گھروں تک محدود رہیں گے اور یہ عمل آئندہ 21 تک جاری رہے گا۔

تاہم اس دوران بھارت میں کھانے پینے کے اشیا کی قلت سمیت دیگر مسائل کے پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور اندازے کے مطابق حکومت 10 لاکھ کروڑ روپے تک کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

لاک ڈاؤن کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ، فضائی سفر، ریلوے بھی بند رہے گی جب کہ عوامی مقامات سمیت مذہبی مقامات کو بھی بند رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: بھارت کی 20 ریاستوں کے 75 اضلاع میں لاک ڈاؤن

تعلیمی ادارے پہلے ہی بند کیے جا چکے ہیں جب کہ سرکاری دفاتر میں بھی ملازمین کی محض 5 فیصد حاضری کو یقینی بنانے کی ہدایات کی گئی ہیں، ساتھ ہی نجی اداروں نے بھی دفاتر بند کردیے ہیں۔

بھارت میں 25 مارچ کی صبح تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 500 سے زائد ہو چکی تھی جب کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی 10 تک جا پہنچی تھی۔

بھارت میں 22 مارچ کو 14 گھنٹوں کا کرفیو بھی نافذ کیا گیا تھا—فوٹو: رائٹرز
بھارت میں 22 مارچ کو 14 گھنٹوں کا کرفیو بھی نافذ کیا گیا تھا—فوٹو: رائٹرز

بھارت میں اپنے دیگر پڑوسی ممالک جن میں ایران اور پاکستان سرفہرست ہیں، ان کے مقابلے تاحال کورونا کے مریض کم سامنے آئےہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں 14 گھنٹوں کا جنتا کرفیو، لوگ گھروں تک محدود، کاروبار بند

خطے میں سب سے زیادہ مریض ایران میں ہیں، جہاں 25 مارچ کی صبح تک مریضوں کی تعداد بڑھ کر 25 ہزار کے قریب جا پہنچی تھی اور وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی 1934 تک جا پہنچی تھی۔

ایران کے بعد خطے میں سب سےزیادہ متاثر ملک پاکستان ہے، جہاں 25 مارچ کی صبح تک مریضوں کی تعداد بڑھ کر 997 تک جا پہنچی تھی اور وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 7 تک جا پہنچی تھی۔

اسی طرح دنیا بھر میں 25 مارچ کی صبح تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 4 لاکھ 23 ہزار سے زائد ہو چکی تھی جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 18 ہزار 919 تک جا پہنچی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024