انڈیا: مرغوں کی لڑائی، سٹے کی معیشت
جھاڑکھنڈ کے دارالحکومت رانچی کے مشہور جگن ناتھپر مندر کے پاس مجمع لگا ہوا ہے۔ دور سے یہ نظارہ دیکھ کر ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہے۔ ڈھیر سارے لوگ ایک دائرے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور سیٹیاں بجا رہے ہیں۔ سيٹيوں کی آوازیں مسلسل تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اسی درمیان تالیوں کی آوازیں شور میں بدلنے لگتی ہیں۔ دھیرے دھیرے جوش پاگل پن میں بدلنے لگتا ہے۔
قریب جا کر دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ بیس فٹ کے دائرے میں دو مرغوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ ان کے پیروں میں چاقو بندھے ہیں، اور ان کی پینترے بازی پہلوانوں کو مات دے رہی ہے۔ بجلی کی چمک جیسی تیزی سے وہ اپنے داؤ بدلتے ہیں اور ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں۔ لیکن کسی ایک کی ہار تو ہونی ہی ہے۔ سات آٹھ منٹ بعد ایک مرغا لہولہان ہو کر گر جاتا ہے۔ اس کے پیٹ میں دوسرے مرغے کے پیر سے بندھا چاقو لگ گیا ہے۔ اسے علاج کے لیے لے جایا جاتا ہے اور فاتح مرغے کو اس چھوٹے سے میدان میں اس انداز میں گھمایا جاتا ہے گویا وہ مرغا نہ ہوبلکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کوئی لڑاكا پہلوان ہو۔
اس مرحلے پر اس کھیل میں مرغوں کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد شروع ہوتا ہے ایک دوسرا کھیل، یہ پیسے کا کھیل ہے۔ پانچ منٹ کے اندر اندر ہی یہاں لاکھوں روپے کی ریل پیل ہوجاتی ہے۔ یہ پیسہ اس سٹّے کا ہے جو مرغوں کی لڑائی سے پہلے لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ مرغوں کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ روایتی طور پر خانہ بدوش قبائلیوں کی تفریح کا یہ کھیل اب جھاڑکنڈ ریاست کی شہری زندگی میں جوئے اور سٹّے کا ذریعہ بن گیا ہے۔
جھاڑکھنڈ ہندوستان کی مشرقی ریاست ہے، 15 نومبر 2000ء میں بہار کے جنوبی حصے کو الگ کرکے جھاڑ کھنڈ کے نام سے ایک الگ ریاست تشکیل دی گئی تھی۔ اس کی سرحد شمال میں بہار، اتر پردیش اور چھتیس گڑھ سے جبکہ جنوب میں اُڑیسہ اور مشرق میں مغربی بنگال سے ملتی ہیں۔صنعتی شہر رانچی اس کا دارالحکومت ہے۔ جمشید پور ریاست کا وسیع اور بڑا صنعتی شہر ہے۔دیگر صنعتی مراکز میں دھندباد، بوکارو اور ہزار باغ اہم شہر ہیں۔
یہ کھیل دیکھ کر دو سوال خود بخود ہی دل میں اُبھرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان مرغوں کو اتنے خطرناک کھیل کے لیے تیار کس طرح کیا جاتا ہوگا؟ کیا اس کھیل کے لیے تیار کیے جانے والے مرغوں کی کوئی خاص نسل ہوتی ہے؟ دوسرا یہ کہ غریب ماضی کے خانہ بدوش قبائلیوں کی تفریح کا یہ کھیل، پیسے والوں کے شغل اور سٹے کا کھیل کیسے بن گیا؟یہ تجسس بھی سر اٹھاتا ہے کہ آخر یہ کتنا بڑا کاروبار ہے؟
پہلے سوال کا جواب ہم بھولا مہالی سے پوچھتے ہیں۔ بھولا پہلے رانچی میں واقع ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن لمیٹڈ کے اہلکار تھے، لیکن 1962ء سے ”مرغے باز“ بھی ہیں یعنی مرغوں کی لڑائی کرواتے ہیں۔ بھولا بتاتے ہیں ”یہ کھیل جھارکھنڈ اور جنوبی بھارت میں نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں اسے كڈو پُنجو اور راج پُنجو بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ وہاں مرغوں کے پاؤں میں ہتھیار باندھنے کے بجائے دوسرا طریقہ اپنایا جاتا تھا۔ چاقو کے بجائے مرغے کے پاؤں کو ہی دھار دار بنا دیا جاتا تھا۔ مرغے کے پاؤں کے پچھلے والے حصے (پنجوں کے اوپر کا حصہ) میں سُور کے گوبر میں ريٹھے کے چھلکے کو پیس کر اسے باندھ دیا جاتا تھا۔
اسے مسلسل سات دن اور چوبیس گھنٹے پانی ڈال کر بھگويا جاتا تھا، ایک ہفتے بعد جب اسے کھولا جاتا تو مرغوں کے پاؤں میں گانٹھیں کانٹے کی مانند باہر نکل آتیں اور یہی ان کا ہتھیار ہوتا۔
بھولا بتاتے ہیں کہ آج کل لڑائی کے لیے تیار کیے جانے والے مرغوں کو اولاد کی طرح پالا جاتا ہے۔ بیماری میں اس کا علاج کرایا جاتا ہے اور اندھیرے میں رکھ کر اسے غصہ ور اور چڑچڑا بنا دیا جاتا ہے۔ اسے مرغی سے دور رکھا جاتا ہے۔ ان مرغوں کو طاقتور بنانے کے لیے انہیں خشک مچھلی کا محلول، کشمش، اُبلی ہوئی مکئی، یہاں تک کہ وٹامن کے انجکشن تک دیے جاتے ہیں۔
بھولا بتاتے ہیں، ”اگر مرغا لڑتے لڑتے زخمی ہو جائے تو علاج کے بعد وہ لڑائی کے لیے دوبارہ تیار ہو جاتا ہے۔“
ان کے مطابق سنہری بالوں والے مرغے کی لڑائی پر زیادہ بولی لگائی جاتی ہے، کیونکہ وہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور مرغوں کی لڑائی کا کام کرنے والے لوگ اس کی خریداری چٹ گاؤں اور وجےنگرم سے کرتے ہیں۔ ان مرغوں کی قیمت بعض اوقات ایک لاکھ روپے تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
اکثر جہاں مرغوں کی لڑائی کا کھیل ہوتا ہے وہاں شراب کے اڈے بھی چوری چھپے چلائے جاتے ہیں اور ”مٹكے کا کھیل“ یعنی جوا بھی خوب ہوتا ہے۔
یہ سن کر شدید حیرت ہوئی کہ آخر ایک مرغے کے لیے اتنی بڑی رقم کون لگاتا ہوگا اور کیوں؟ جواب تلاش کرنے کے لیے ہم رانچی کے آس پاس کے علاقے میں ہونے والی مرغوں کی لڑائی میں جاپہنچتے ہیں۔ یاد رہے کہ لڑائی کا دن طے ہوتا ہے۔ پیر اور جمعہ کو انيٹولا، بدھ اور جمعرات کو كٹهل موڑ، ہفتہ کو راتو باغ میں مرغے لڑائے جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں اور بہت سی معلومات بھی حاصل ہوئیں۔
اورمانجھی کے كچّو گاؤں کے رہنے والے من راج بتاتے ہیں ”لڑاکو مرغوں کے پیروں میں جو انگریزی کے یو کی شکل کا ہتھیار آپ دیکھ رہی ہیں، اسے چاقو یا تلوار نہیں بلکہ كتھی کہا جاتا ہے اور اسے ہر کوئی نہیں باندھ سکتا۔ اسے باندھنا بھی ایک فن ہے، جو اس کو باندھنا جانتے ہیں ، انہیں كاتكير کہا جاتا ہے۔ ایک كاتكير ایک مرغے کے پاؤں میں كتھی باندھنے کا تین سو روپے لیتا ہے اور اگر وہ مرغا لڑائی میں جیت جائے تو دو سو روپے اوپر سے بھی اسے مل جاتے ہیں۔“ منراج کے مطابق كتھی بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں، ”بانكی، بانكڑی، سُلپھی، چھريا، چار طرح کے ہتھیاروں کا استعمال مرغوں کے پاؤں میں باندھنے کے لیے کیا جاتا ہے، جس میں بانكڑی سب سے خطرناک ہوتی ہے۔ یہ سب ٹھوس اسٹیل کے بنے ہوتے ہیں، جسے بنانے والے کاریگر بھی مختلف ہوتے ہیں۔ الگ الگ ناموں والے ہتھیاروں کا استعمال بھی الگ الگ موقع کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ یعنی خطرناک طریقے سے لڑائی کروانی ہے تو خطرناک ہتھیار، عام طریقے سے لڑوانا ہے تو عام ہتھیار۔“
یہ معلومات بھی ملتی ہے کہ یہ کھیل پورے جھارکھنڈ میں کھیلا جاتا ہے۔ كٹهل موڑ پر مرغا لڑانے والے وجئے بتاتے ہیں کہ یہ کھیل پہلے راجہ مہاراجہ کی شان میں لگنے والے میلوں میں ہوتا تھا، جہاں گاؤں دیہات کےقبائلی لوگ اپنے اپنے مرغے لے کر پہنچتے تھے اور پھر تفریح کے لیے تماشائی اپنی پسند کے مرغے پر کبھی کبھار کچھ بولی بھی لگا دیتے تھے۔ لیکن زیادہ تر بازیاں صرف مرغے کی جیت ہار پر لگتی تھی۔ یعنی جو مرغا ہار جائے گا اس مرغے کو جیتنے والے مرغے کا مالک لے کر چلا جائے گا۔ اب اس کی مرضی پر ہے کہ وہ اس مرغے کو پالے پوسے یا پھر کھا جائے۔
مرغوں کی لڑائی میں دلچسپی رکھنے والے وجئے ٹےٹے نے ہمیں اس جنگ کے معاشی فوائد سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ ”گاؤں دیہات سے تو مرغا پالنے والے اب بھی مرغا جنگ کے دوران اپنے اپنے مرغوں کو لے کر آتے ہیں، لیکن اُن کے میدان میں پہنچنے سے پہلے ہی اس پر سٹّے بازوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ جس کے پاس ہاجرا مرغا (مرغے کی ایک قسم) ہوتا ہے، اس کے پیچھے سٹّے باز سب سے زیادہ چلتے ہیں۔
ٹےٹے مزید کہتے ہیں کہ ”ہو سکتا ہے کہ ماضی میں یہ کھیل محض تفریح کے لیے ہوتا ہو، اور گھنٹے دو گھنٹے میں سب ختم ہو جاتا ہوگا، لیکن اب تو صرف رانچی میں ہی ہر روز کسی نہ کسی علاقے میں یہ کھیل ہوتا ہے اور ایک ایک دن میں چالیس پچاس لڑاياں ہو جاتی ہیں۔ ایک لڑائی پر بیس پچیس ہزار سے لے کر لاکھ دو لاکھ تک کی بولی لگتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سٹے باز ہی اس میں کمائی کرتے ہیں۔
سٹے باز تو خیر لاکھوں کی بازیاں کھیلتے ہیں، لیکن مرغوں کی لڑائی کا یہ کھیل ایک دھندے کی طرح ہوگیا ہے، آپ سوچیے کہ ایک بار ہتھیار باندھنے والا کم سے کم 300 روپے لیتا ہے۔ اگر اس نے دن بھر میں بیس تیس مرغوں کے ہتھیار بھی باندھ دیے تو پانچ چھ ہزار تو اس کی جیب میں آ ہی جاتے ہیں۔
'اسی طرح مرغوں کے ڈاکٹر الگ ہوتے ہیں، جو موقع پر علاج بھی کرتے ہیں۔ ان کی کمائی بھی خوب ہوتی ہے اور گاؤں کے جو لوگ اپنے گھروں میں مرغا پالتے ہیں ان کی آمدنی میں بھی اب اتنی ہونے لگی ہے کہ وہ گھر بنا لیں، گاڑی خرید لیں۔
مرغوں کی لڑائی کروانے والے بہت سے اب اچھی حالت میں نظر آتے ہیں۔ مرغے کے کھیل کا سماجیات اور سیاسیات سے رشتہ سمجھانے والے لوگ تو کم ہیں، البتہ اس معاشی فوائد گنوانے والے بہت سے ملتے ہیں۔ بہرحال ہمیں تو اس میں کرمنالوجی یا جرائم کا عکس ہی دکھائی دیتا ہے۔
اکثر جہاں مرغوں کی لڑائی کا کھیل ہوتا ہے وہاں شراب کے اڈے بھی چوری چھپے چلائے جاتے ہیں اور جوا بھی خوب ہوتا ہے۔
مشہور صحافی پی سائی ناتھ اپنی کتاب تیسری فصل میں ملكہ نگری کی مرغوں کی لڑائی پر لکھتے ہیں، ”جب سے ہتھیاروں کا استعمال مرغوں کے پاؤں میں کیا جانے لگا ہے، تب سے یہ روایتی کھیل خطرناک ہو گیا ہے اور پہلے جو کھیل سے لطف اندوز کے لیے گھنٹوں چلتا تھا، وہ چند منٹوں میں ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ اتنی ہی دیر میں بجلی کی طرح جھپٹ كر ایک دوسرے پر وار کرنے والے دو مرغوں میں سے کوئی ایک شدید زخمی ہو جاتا ہے۔“
یہ بات واضح ہے کہ ہتھیاروں کا چلن بھی سٹےبازوں نے ہی شروع کیا ہو گا، کیوں کہ مرغے ہتھیار سے لڑیں گے تو کھیل جلد ختم ہو جائے گا۔ اگر ایک کھیل جلد ختم ہوگا تو دوسرے، تیسرے، چوتھے ، یعنی ایک دن میں چالیس پچاس لڑائیوں کی گنجائش نکل سکے گی، اور جتنی زیادہ لڑائیاں، اتنا ہی زیادہ سٹے پر لگنے والا پیسہ۔
ہندی سے ترجمہ۔ تحریر: انوپما