• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

کورونا وائرس کس حد تک خطرناک اور صحت یابی کا امکان کتنا ہوتا ہے؟

شائع March 21, 2020
— شٹر اسٹاک فوٹو
— شٹر اسٹاک فوٹو

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر اچھی خبر یہ ہے کہ بیشتر مریضوں میں اس کی شدت بہت زیادہ نہیں ہوتی۔

یہ بات چین میں اب تک سب سے زیادہ تعداد میں مریضوں پر ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

عالمی ادارہ صحت پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کووڈ 19 کے 80 فیصد مریضوں میں اس کی علامات معتدل یا کم ہوتی ہیں اور اسی کو جانچنے کے لیے چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے 72 ہزار سے زائد مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔

اس ڈیٹا سے وائرس کے اثرات کے بارے میں جاننے میں مزید مد مل سکے گی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ مردوں اور خواتین میں اس کا شکار ہونے کا امکان لگ بھگ یکساں ہوتا ہے، مرد مریضوں کی تعداد 51.4 فیصد جبکہ خواتین میں 48 فیصد سے کچھ زیادہ۔

مگر مردوں میں اموات کی شرح زیادہ ہے کم از کم ابتدائی تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے، یعنی اس مرض سے مردوں میں اموات کی شرح 2.8 فیصد ہے جبکہ خواتین میں 1.7 فیصد۔

محققین نے یہ بھی جائزہ لیا کہ تشخیص کے بعد کتنے فیصد افراد کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ 80 فیصد کو معتدل علامات کا سامنا ہوا، 14 فیصد کے قریب کو شدید نوعیت کا قرار دیا جبکہ لگ بھگ 5 فیصد کو سنگین حد تک بیمار قرار دیا گیا۔

اگرچہ معتدل مریضوں کی تعداد زیادہ اور شدید یا سنگین حد تک بیمار ہونے والے بہت کم ہوتے ہیں مگر وبا کے پھیلائو کا پیمانہ متعدد ممالک کے طبی نظام کو ہلانے لگا ہے، شمالی اٹلی کے شہر بیراگامو اس وائرس سے اتنی بری طرح متاثر ہوا ہے کہ وہ بہت زیادہ بیمار افراد کو ملک کے دیگر حصوں میں بھیجنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے صحت یابی کی شرح اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتی جب تک وبا پر قابو نہیں پالیا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے مکمل ڈیٹا سیٹ کی ضرورت ہوگی۔

مگر چین کے اعدادوشمار سے یہ ضرور عندیہ ملتا ہے کہ بیشتر افراد اس بیماری کو شکست دے دیتے ہیں خاص طور پر چین میں جہاں 81 ہزار کیسز میں سے 70 ہزار سے زیادہ افراد صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ 32 سو سے زائد ہلاک اور باقی کا علاج جاری ہے۔

ڈیٹا میں زیادہ تر مریضوں کی عمریں 30 سے 69 سال کے درمیان تھیں مگر اموات کی شرح معمر افراد میں زیادہ تھی۔

تحقیق کے مطابق 49 سال یا اس سے کم عمر افراد میں اموات کی شرح 0.2 فیصد تھی جبکہ 80 سال یا اس سے زیادہ عمر ک افراد میں 14 فیصد سے زائد۔

یعی عمر جتنی زیادہ ہوگی، یہ وائرس اس حوالے سے زیادہ خطرناک ہوگا اور یہ چین کی ہی بات نہیں اٹلی کے تازہ ترین ڈیٹا سے بھی یہی رجحان سامنے آتا ہے۔

اٹالین نیشنل ہیلتھ انسٹیٹوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق ہلاک افراد کی اوسط عمر 80 سال جبکہ بیمار ہونے والے افراد کی اوسط عمر 63 سال ہے۔

اموات کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو ہلاک ہونے والوں میں خواتین کی تعداد 30 فیصد کے قریب ہے اور اوسط عمر 83.6 سال تھی۔

مگر فرانس میں طبی حکام نے دریافت کیا کہ اس وقت ہسپتالوں کے آئی سی یو میں زیرعلاج 50 فیصد کے قریب مریضوں کی عمریں 60 سال سے کم تھی جس کو فرانسیسی حکام نے اس وبا کا نیا رجحان قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں : کورونا وائرس صرف بزرگوں نہیں جوانوں کے لیے بھی خطرہ ہے، تحقیق

تاہم ان کیسز کی تفصیلات اور ان میں سے کتنے مریض پہلے سے کسی بیماری کا شکار تھے ، اس بارے میں ڈیٹا فی الحال دستیاب نہیں۔

ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نوجوانوں میں اس مرض کی شدت معتدل یا کم ہو مگر انہیں اس خطرے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر وہ بیمار ہوئے تو وہ وائرس اپنے سے زیادہ کمزور افراد تک منتقل کرسکتے ہیں، چاہے یہ نوجوان خون کو بیمار محسوس نہ کریں۔

ایک الگ تحقیق میں سائنسدانوں یہ بھی دریافت کیا کہ چین میں بچوں میں اس کی علامات بالغ افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ شدت والی نہیں تھیں۔

جرنل پیڈیاٹرکس میں شائع تحقیق میں بچوں کے 731 مصدقہ اور 1412 مشتبہ کیسز کو دیکھا گیا اور معلوم ہوا کہ ایسے 90 فیصد سے زیادہ مریض ایسے تھے جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں، یعنی بہت معمولی یا معتدل حد تک بیمار تھے۔

13 فیصد بچوں میں اس وائرس کی تشخیص اس وقت ہوئی جب ان میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں اور 2143 کیسز میں سے صرف ایک 14 سالہ بچہ ہلاک ہوا جبکہ صرف 6 فیصد کے قریب کیسز کی شدت زیادہ تھی۔

محققین تاحال یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کووڈ 19 بچوں پر بالغ افراد جیسا اثر انداز کیوں نہیں ہوتا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024