• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

افواہوں کے بعد کلوروکوئن دوا بھی پاکستانی میڈیکل اسٹورز سے غائب

شائع March 20, 2020 اپ ڈیٹ March 21, 2020
کلوروکوئن نامی دوا میں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد مانگ بڑھی—فائل فوٹو: رائٹرز
کلوروکوئن نامی دوا میں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد مانگ بڑھی—فائل فوٹو: رائٹرز

ملیریا کے علاج میں کام آنے والی دوا 'کلوروکوئن' کے کورونا وائرس کے مریض پر مثبت اثر کرنے کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مذکورہ دوا کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کے بڑے شہروں کے متعدد میڈیکل اسٹورز سے اچانک غائب ہوگئی۔

ہائڈروکسی کلوروکوئن فاسفیٹ دوا، جسے عام طور پر کلوروکوئن بھی کہا جاتا ہے، کئی سال سے ملیریا کے بخار کے لیے استعمال ہو رہی ہے، تاہم اچانک 19 مارچ کی شب سوشل میڈیا پر یہ خبریں وائرل ہوئیں کہ مذکورہ دوا کورونا وائرس پر اثر دکھاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر خبریں وائرل ہونے کے بعد مذکورہ دوا کی مانگ میں اچانک بے حد اضافہ دیکھا گیا اور اس کی مانگ کی وجہ سے یہ دوا ملک کے بڑے شہروں کے میڈیکل اسٹورز پر ختم ہوگئی۔

صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے بڑے شہر کراچی کے متعدد میڈیکل اسٹورز جن میں بن ہاشم، کوثر میڈیکوز، نائس میڈیکوز اور نیو وے میڈیکوز شامل ہیں وہاں یہ دوا ختم ہوگئی۔

کلوروکوئن فارمولے میں ریسوچن گولیاں بھی ہوتی ہیں اور ان کی اچانک مانگ کے بعد یہ دوائیاں میڈیکل اسٹورز پر نایاب ہوگئیں کیوں کہ زیادہ تر افراد کو یہ لگا کہ مذکورہ دوا تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس پر اثر دکھاتی ہے۔

کراچی کے مصروف علاقے ایف بی ایریا میں واقع بن ہاشم میڈیکل اسٹور کے اسٹاف نے ڈان کو بتایا کہ بایر فارماسیوٹیکل کی جانب سے تیار کی جانے والی ریسوچن گولیاں ان کے پاس گزشتہ شب ہی ختم ہوگئی تھیں۔

میڈیکل اسٹور کے ملازم نے بتایا کہ مذکورہ گولیوں کا 10 گولیوں کا پیکٹ محض 25 روپے میں فروخت ہوتا ہے اور ان کے میڈیکل اسٹور سے اچانک ایک ہی دن میں ان گولیوں کا اسٹاک ختم ہوگیا اور وہ اسی فارمولے سے تیار ہوئی دوسری دوا فروخت نہیں کرتے۔

ایم اے جناح روڈ پر واقع کوثر میڈیکوز کے عملے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے پاس سے بھی ریسوچن اور پلاکونل نامی گولیاں ختم ہوچکی ہیں۔

کراچی کے طرح ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے معروف میڈیکل اسٹور فضل الدین اینڈ سنز نے بھی بتایا کہ ان کے پاس بھی مذکورہ دوائیاں ختم ہوچکی ہیں جب کہ لاہور کے علاقے ڈیفنس میں واقع محمود فارمیسی نے بھی مذکورہ دوائیاں ختم ہونے کی تصدیق کی۔

دوسری جانب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے سوشل میڈیا پر خبریں وائرل ہونے کے بعد مذکورہ ادویات کی ڈاکٹری نسخے کے بغیر فروخت پر فوری طور پر پابندی عائد کردی۔

ڈریپ کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں میڈیکل اسٹورز مالکان کو واضح ہدایت کی گئی کہ ڈاکٹری نسخے کے بغیر کلوروکوئن اور پلاکونل گولیوں کی فروخت نہ کی جائے اور ساتھ ہی ادارے نے میڈیکل اسٹورز کو ہدایت کی کہ وہ مذکورہ دوائیوں کی فروخت سے متعلق تمام متعلقہ ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کریں۔

اس حوالے سے جب محکمہ صحت سندھ کی ترجمان میران یوسف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میڈیکل اسٹورز پر کلوروکوئن اور پلاکونل دوائیوں کی قلت کا معاملہ حکومت کی نظر میں ہے اور اس حوالے سے کام کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹری نسخے کے بغیر ہی بہت ساری دوائیاں خریدنے اور انہیں استعمال کرنے کے حوالے سے میران یوسف کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر مذکورہ ادویات کو استعمال کرنے سے کچھ مریضوں کو سائیڈ افیکٹ بھی ہوسکتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ شہر میں مذکورہ دوائیوں کی قلت اور ان کی اچانک فروخت کا معاملہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت ٹاسک فورس کے اجلاس میں اٹھایا جائے گا اور اس حوالے سے مناسب حکمت عملی بھی ترتیب دی جائے گی۔

کیا مذکورہ دوا واقعی کورونا پر اثر کرتی ہے؟

کورونا وائرس کے مریضوں کا ہائڈروکسی کلوروکوئن فاسفیٹ نامی دوا سے علاج کرنے کی خبریں صرف افواہوں پر مبنی نہیں ہیں، اس حوالے سے حال ہی میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں مذکورہ دوائی کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے مریض پر اثر کرتی ہے۔

معروف طبی جریدے نیچر میں 4 فروری 2020 کو شائع ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ دوا کا استعمال 17 ہزار 848 کورونا وائرس کے مریضوں پر کیا گیا جن میں سے کئی افراد صحت یاب ہوئے، تاہم یہ بھی بتایا گیا کہ مذکورہ دوا کا حد سے زیادہ استعمال دیگر مسائل سمیت موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

مذکورہ تحقیق کے بعد حال ہی میں چینی ماہرین کی ایک اور تحقیق سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کے مریض جن میں نمونیا کی بھی علامات ہوں ان مریضوں پر کلوروکوئن بہتر اثر دکھاتی ہے اور مریض جلد صحت یاب ہوسکتا ہے۔

مذکورہ تحقیقات کے بعد 17 مارچ کو امریکا کی یونیورسٹی آف مینوسوٹا نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ کورونا وائرس کے متاثرہ افراد پر کلوروکوئن نامی دوا کا تجربہ شروع کرے گی کیوں کہ کلینیکل لیبارٹری میں پہلے یہ دیکھا گیا کہ مذکورہ دوائی کورونا کے مریض پر اثر کر رہی ہے۔

یونیورسٹی نے واضح کیا تھا کہ مذکورہ ٹرائل اسی لیے ہی شروع کیا جا رہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ مذکورہ دوائی کورونا کے مریضوں پر اثر کرتی ہے یا نہیں۔

یونیورسٹی کے اعلان کے بعد 19 مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ماہرین صحت کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی منظوری کے بعد ملیریا کے علاج میں کام آنے والی دوائیوں ہائڈروکسی کلوروکوئن یا صرف کلوروکوئن کو کورونا وائرس کے مریضوں پر آزمایا جائے گا کیوں کہ ایسے شواہد ملیں ہیں کہ یہ دوا وائرس کے متاثرہ مریضوں پر اثر دکھاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے ادارے اس دوا کی بہتر اور وافر مقدار میں تیاری پر کام کر رہے ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مذکورہ دوائی کی جلد سے جلد فراہمی شروع کردی جائے۔

ابھی خرید لو، لوگوں کو پتہ نہیں

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں آدھی رات کو میڈیکل اسٹور کے باہر پلاکونل کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑے ہوئے عمر نے ڈان کو بتایا کہ انہیں ایک دوست نے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا کہ مذکورہ دوا کورونا وائرس کو ختم کر دیتی ہے۔

عمر نے بتایا کہ انہیں ان کے دوست نے بعد ازاں فون کرکے بتایا کہ پلاکونل دوا کورونا وائرس کو ختم کردیتی ہے اور اس دوا کو ابھی خرید لو، کیوں کہ تاحال لوگوں کو پتہ نہیں۔

لیکن عمر کو اس وقت بے حد مایوسی ہوئی جب انہیں مذکورہ دوا 2 میڈیکل اسٹورز پر نہیں ملی۔

ڈیفنس کے علاقے میں ہی موجود ایک میڈیکل اسٹور کے ملازم نے بتایا کہ چند دن قبل تک شہر میں کوئی بھی پلاکونل دوا سے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا مگر اچانک لوگوں کو اس کا پتہ چلا اور 2 دن قبل ہی مذکورہ دوا کی قلت پیدا ہوگئی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پلاکونل اور کلوروکوئن جیسی دوائیوں سے متعلق گزشتہ چند سال سے ہونے والی تحقیقات میں یہ بات بتائی گئی کہ اب مذکورہ دونوں دوائیوں کا استعمال دنیا بھر میں کافی کم ہوگیا ہے اور ان دوائیوں کا کم استعمال کرنے والے ممالک میں چین بھی شامل ہے۔

اسی حوالے سے کراچی کے ایک میڈیکل اسٹور کے ملازم نے بتایا کہ گزشتہ چند سال سے مذکورہ دونوں دوائیوں کی رسد اور طلب کم ہی رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024