کراچی میں لاک ڈاؤن کا خوف، سپر مارکیٹس، اسٹور پر پریشان خریداروں کا رش
کراچی کے مبینہ لاک ڈاؤن کے خوف کے باعث مقامی شہری کئی بڑی سپر مارکیٹس کے پارکنگ لاٹ میں گھریلو سامان سے لدی ہوئی ٹرالیاں لے جاتے ہوئے نظر آئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان ٹرالیوں میں آٹے کے تھیلے، چاول، دالیں، چینی کے پیکٹس، خوردنی تیل کی بوتلیں، گھی کے ڈبے، دودھ اور خشک دودھ کے کارٹن، بسکٹس، بیکری کی اشیا، انڈے، پیاز آلو، صابن شیمپو، ہینڈ سینیٹائزرز کی بوتلیں وغیرہ شامل تھیں۔
ان میں سے کہیں ایک شخص ایک ساتھ 2، 2 ٹرالیاں لے جاتا نظر آیا اور کہیں ایک ہی خاندان کے کئی افراد الگ الگ ٹرالیاں لے جاتے نظر آئے۔
اس صورتحال پر شہناز نامی ایک خاتون خریدار کا کہنا تھا کہ 'محفوظ رہنا پچھتانے سے بہتر ہے، اگر لاک ڈاؤن ہوگیا تو ہم کیا کریں گے کس طرح کھائیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: سندھ میں مزید 3 کیسز سے ملک میں مجموعی تعداد 304 ہوگئی
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی ان کے شوہر کو تنخواہ ملی وہ فوراً خریداری کے لیے آگئیں۔
کونسی اشیا وہ زیادہ اہم سمجھتی ہیں اس حوالے سے خاتون نے بتایا کہ انہوں نے آٹا، چاول، دالیں اور چینی خریدی ہے، ہم 8 افراد کا خاندان ہیں اور خوارک کے حوالے سے غفلت نہیں برت سکتے اگر بعد میں بھی مارکیٹ کھلی رہیں اور ان کے پاس اسٹاک ختم ہوگیا تو کیا ہوگا۔
ایک اور خاتون نے کہا کہ انہوں نے اتنا سامان خرید لیا ہے جو ان کے اہلِ خانہ کے لیے 20 روز تک کے لیے کافی ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ رقم بھی پس پشت رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں کام آسکے۔
حیران کن طور پر لوگ کرکٹ کے بلے، بیڈمنٹن کے ریکٹس اور فٹ بال بھی خریدتے نظر آئے، ایک خاتون نے اس حوالے سے پوچھنے پر بتایا کہ 'بچے گھر میں بیٹھ کر بور ہورہے ہیں اس سے وہ گھر میں کرکٹ اور بیڈمنٹن کھیل سکیں گے'۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: پی ٹی اے نے موبائل فون رجسٹریشن کی مدت 90 روز تک بڑھادی
تاہم کچھ افراد ایسے بھی تھے جو بالکل بھی پریشان نظر نہیں آئے، نگہت ساجد نامی خاتون اپنی ٹرالی میں صرف 2 سے 3 جھاڑو لے جاتی نظر آئیں، ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے پورا یقین ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، یہ وقت بھی گزر جائے گا'۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ بحرانی صورتحال کے دوران وہ گھر کی صفائی کے ساتھ کچھ اور گھریلو کام جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
واضح رہے کہ ملک میں اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 304 تک جا پہنچی ہے جبکہ اس عالمی وبا سے پاکستان میں 2 افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔
مذکورہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبائی حکومتوں نے شاپنگ مالز اور تفریحی مقامات کے علاوہ کچھ سرکاری دفاتر کو بھی بند کردیا ہے۔