• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پولیس کا دعا منگی، بسمہ کے ‘اغوا کار’ گرفتار کرنے کا دعویٰ

شائع March 18, 2020 اپ ڈیٹ March 19, 2020
کراچی میں طالبات کے اغوا کے خلاف شہریوں نے شدید احتجاج کیا تھا—فائل.فوٹو:ٹوئٹر
کراچی میں طالبات کے اغوا کے خلاف شہریوں نے شدید احتجاج کیا تھا—فائل.فوٹو:ٹوئٹر

کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ برس ڈیفنس سے دو طالبات کے اغوا میں ملوث 2 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

کراچی پولیس چیف ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پولیس نے دو مبینہ اغوا کاروں کو گرفتار کرلیا ہے جن کی شناخت مظفر اور زوہیب کے نام سے ہوئی ہے اور ان کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

واضح رہے کہ ڈیفنس میں گزشتہ برس مئی اور نومبر میں طالبات کو اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد شہریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں:ڈیفنس سے اغوا ہونے والی طالبہ دعا منگی گھر واپس پہنچ گئیں

رپورٹ کے مطابق دونوں ملزمان کا جرائم کا ریکارڈ ہے اور وہ شہر میں گاڑیاں چھیننے میں بھی ملوث ہیں جبکہ ایک پولیس افسر بھی ان سرگرمیوں میں ملوث تھے جن کو محکمہ سے فارغ کردیا گیا تھا۔

ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے کہا کہ اغوا کاروں نے ایک سال قبل کلفٹن بلاک 2 میں فلیٹ کرایے پر لیا تھا جہاں پر دونوں مغوی لڑکیوں کو رکھا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں واقعات میں 5 ملزمان ملوث تھے اور ان میں سے 3 اب بھی مفرور ہیں، تاہم پولیس نے سندھ حکومت کو تجویز دی ہے کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے 50 لاکھ روپے انعام مقرر کردیا جائے۔

کراچی پولیس چیف نے واضح کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دونوں لڑکیوں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کریں گے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے 'سی آئی اے' کے ڈی آئی جی عارف حنیف نے کہا کہ اغوا کی ان کارروائیوں کے مرکزی کردار ایک سابق پولیس افسر آغا منصور تھے۔

سابق پولیس افسر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ ‘بڑے کریمنل’ ہیں جو شہر میں دیگر اغوا برائے تاوان کے واقعات میں ملوث ہیں۔

ڈی آئی جی عارف حنیف کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور گواہوں کے بیانات کی مدد سے دونوں ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیابی ملی۔

یہ بھی پڑھیں:دعا منگی کے اغوا کے پیچھے عسکریت پسند گروہ کے ہونے کا شبہ

اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے ذرائع کا کہنا تھا کہ آغا منصور سیل میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے اور انہیں 10 سے 12 سال قبل پولیس کی سروس سے برخاست کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بنیادی طور پر شکارپور سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث رہے۔

یاد رہے کہ 11 مئی 2019 کو ڈیفنس میں کار سوار مسلح افراد نے بسمہ نامی طالبہ کو ان کے گھر کے باہر سے اغوا کیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق وہ ایک ہفتے بعد تاوان ادا کرنے کے بعد گھر واپس پہنچی تھیں جس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پولیس نے بظاہر معاملے کو نظر انداز کر رکھا تھا۔

مزید پڑھیں:کراچی: لڑکی کے اغوا میں 'قریبی شخص' ملوث ہوسکتا ہے، پولیس

ڈیفنس میں اغوا کا دوسرا واقعہ 30 نومبر 2019 کو پیش آیا تھا جہاں دعا منگی کو خیابان بخاری سے مسلح افراد نے اغوا کیا تھا جبکہ ان کے دوست حارث سومرو پر فائرنگ بھی کی تھی۔

دعا منگی بعد ازاں دسمبر میں گھر واپس آئی تھیں اور ان کے حوالے سے بھی اطلاعات تھیں کہ انہیں تاوان ادا کرنے کے بعد رہا کردیا گیا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا تھا کہ دعا کو ممکنہ طور پر تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا اور اغوا کاروں سے ان کے اہلِ خانہ نے براہِ راست بات کی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024