ایران سے درخواست کی ہے زائرین کو اکٹھا نہ بھیجا جائے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم نے ایران سے درخواست کی ہے کہ ایران میں موجود پاکستانی زائرین کو اکٹھا نہ بھجوایا جائے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے رابطہ کر کے کورونا وائرس سے ایران میں ہونے والی اموات پر افسوس کا اظہار کیا۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے ایرانی وزیر خارجہ سے ایران میں موجود پاکستانی زائرین کی واپسی کے حوالے سے درخواست کی کہ سب کو اکٹھا نہ بھجوایا جائے بلکہ ہمیں اتنا موقع دیا جائے کہ ہم تفتان بارڈر پر مناسب انتظامات کرلیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے 249 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں بڑی تعداد ایران سے آنے والے زائرین کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے سعودی عرب سے بھی گزارش کی ہے کہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے وہاں موجود پاکستانیوں کی واپسی کے لیے اپنی 72 گھنٹے کی پالیسی میں نرمی برتیں تاکہ ہمارے جہاز وہاں آسکیں اور ان کی واپسی کا بندوبست کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں کورونا وائرس کے مزید 9 کیسز، ملک میں متاثرین کی تعداد 246 ہوگئی
بیان میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں میڈیا سے درخواست کروں گا کہ آپ جس طرح اس وبا کے حوالے سے آگاہی مہم چلا رہے ہیں اسے ذمہ داری سمجھتے ہوئے جاری رکھیں اور لوگوں کو حفاظتی اقدامات سے آگاہ کرتے رہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمیں توازن برقرار رکھنا ہوگا ایک طرف غریب مزدور لوگ ہیں اگر مکمل لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو ان کے لیے روزگار کے مسائل پیدا ہوں گے اور اگر آپ بالکل نظر انداز کر دیں تو پھر اس وبا کے پھیلاؤ کا اندیشہ ہے چنانچہ ہمیں دونوں جانب دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ چین نے بھی پورے ملک کے لیے ایک لائحہ عمل نافذ نہیں کیا بلکہ ٹارگٹڈ اپروچ سے کام لیا۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے اس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا لیڈ رول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی اور اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ملک میں کیمبرج سمیت تمام امتحانات یکم جون تک ملتوی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کوئی بھی حکومت ایسی صورت حال سے تنہا نہیں نمٹ سکتی، ہمیں من حیث القوم، متحد ہونا ہوگا اور رضاکارانہ جذبے کے تحت اس کٹھن صورتحال سے نمٹنا ہوگا، اس سلسلے میں ہمیں عوام کی تنقید بھی برداشت کرنا ہوگی اور انہیں باخبر بھی رکھنا ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ چین نے جس طرح اکٹھا ہو کر کورونا وائرس کی آفت پر قابو پایا ہے پاکستان میں بھی سب کو مل کر اس کا سامنا کرنا ہے۔
انہوں نے تمام سیاسی رہنماؤں سے درخواست کی قوم کو جوڑیں اور کہا کہ جو صوبائی حکومت بھی اچھے اقدامات کررہی ہے اسے سراہا جانا چاہیے، وہ سندھ ہو، بلوچستان، خیبر پختونخوا یا پنجاب ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم اس سے قبل بھی کئی آزمائشوں سے گزری ہے اس سے بھی گزر جائے گی۔
وزیر خارجہ نے اپنے پیغام میں عوام کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جانے سے پہلے ہمارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز میں ٹیسٹ ہوئے جو کلیئر آئے اور چین میں اترنے کے فورا ً بعد مزید ٹیسٹس ہوئے جس کے بعد ہماری میٹنگز ہوئیں بعدازاں چین سے واپسی سے قبل پورے وفد کے ایک مرتبہ پھر ٹیسٹ کیے گئے جن کے نتائج آج آجائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نزلہ، زکام جیسی علامات کے ساتھ کراچی کے ہسپتالوں میں عوام کا رش
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'اس کے باوجود میں سے خود سے اپنے آپ کو تنہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 5 روز کے بعد دوبارہ ٹیسٹ کرواؤں گا اور نتائج منفی آگئے تو لوگوں ملنا جلنا شروع کروں گا۔
وبا کا پھیلاؤ اس وقت کم ہو گا جب احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے گا، وزیر خارجہ
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں بھی وزیر خارجہ نے دورہ چین کے حوالے سے آگاہ کیا اور کہا کہ دورہ چین کا مقصد چینی قیادت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات مثالی اور گہرے ہیں ہم نے ہر کڑے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا، آج جب چین کڑے وقت سے نبرد آزما تھا تو ہمیں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کورونا کی وبا سامنے آئی تو بیشتر ممالک نے اپنے شہریوں کو چین سے نکال لیا تھا جسے چین نے عدم اعتماد کا اشارہ سمجھا جبکہ پاکستان نے چین کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے طلبہ کو وہاں سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای 100 انڈیکس 2139 پوائنٹس تک گر گیا
وزیر خارجہ نے بتایا کہ کل جب ہماری چینی صدرِ، وزیراعظم اور دیگر قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے پاکستان کے فیصلے اور چین پر اعتماد کو بے حد سراہا۔
انہوں نے بتایا کہ کل ہماری ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ووہان کی مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ سے بات چیت ہوئی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ الحمدللہ وہ سب کے سب صحت مند تھے اور متحد تھے چینی حکومت نے ان کا بے حد خیال رکھا ہے اور وہاں 4 پاکستانی خواتین نے اولاد کو بھی جنم دیا ہے جو سب صحت مند ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ان طلبہ کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارے والدین کو ہماری فکر لاحق تھی اب ہمیں پاکستان میں اپنے خاندان اور والدین کی فکر لاحق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیسٹ کٹ سے متعلق رہنما پی ٹی آئی کا بیان گمراہ کن ہے، مرتضیٰ وہاب
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اور میں نے انہیں بارہا کہا کہ آپ ایسے مرکز میں قیام پذیر ہیں جس نے اس وبا کا مقابلہ کیا ہے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں آپ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی قوم کو اپنے تجربات سے آگاہ کریں آپ کے پیغامات انہیں حوصلہ اور ہمت دیں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں چینی قیادت نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے مکمل بریفنگ دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ذہنی طور پر اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ اس وائرس کی نشوونما بڑھے گی لیکن ہمیں مؤثر لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں 3 بنیادی اقدامات ہیں جن کے ذریعے چین نے اس وبا پر غلبہ حاصل کیا۔
پہلے نمبر پر تعاون اور اعتماد ہے چینی حکومت نے جو بھی ہدایات جاری کیں چینی عوام نے من و عن ان پر عمل کیا اور حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
مزید پڑھیں: کورونا کا طبی ٹیسٹ دکھانے پر غیرملکیوں کو ملک میں داخلےکی اجازت ہوگی، سی اے اے
دوسری بات یکجہتی ہے چین میں سب نے مل کر اس وبا کا مقابلہ کیا کسی صوبے نے دوسرے پر نکتہ چینی نہیں کی بلکہ ووہان، جو اس وائرس سے سب زیادہ متاثر تھا وہاں سب نے مل کر تعاون کیا۔
انہوں نے کہا کہ چین نے جس طرح ہزاروں کی تعداد میں والینٹیئرز آفت زدہ علاقوں میں بھیجے وہ بھی ہمارے لیے بہترین مثال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تیسری اور اہم بات آگاہی ہے، اس وبا کا پھیلاؤ اس وقت کم ہو گا جب احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ دسمبر 2019 کے وسط میں چین کے شہر سے شروع ہونے والے مرض کورونا وائرس کو عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کو عالمی وبا قرار دیا تھا۔
مذکورہ مرض 18 مارچ کی دوپہر تک دنیا بھر کے 160 سے زائد ممالک تک پہنچ چکا تھا اور اس کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 98 ہزار سے زائد ہو چکی تھی جب کہ اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 8 ہزار تک جا پہنچی تھی۔