• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں،فردوس عاشق اعوان

شائع March 13, 2020
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو حکومتی انتقام قرار دینا غیر منصفانہ ہے۔

گزشتہ روز میر شکیل الرحمٰن کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے 34 سال قبل 54 پلاٹ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے 'غیر قانونی' طور پر حاصل کرنے پر احتساب ادارے میں پیشی کے دوران گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: دوست تو بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں، فردوس عاشق اعوان

آج لاہور کی احتساب عدالت نے انہیں 12 روز کے جسمانی ریمانڈ پر بیورو کے حوالے کر دیا۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اسے 'انتقام' یا یہ کہنا کہ یہ حکومت کی خواہش پر ہوا غیر منصفانہ اور ناانصافی ہے، ہر شخص کو اس پر لگنے والے الزامات پر اپنی بے گناہی کا ثبوت دینے کا اختیار ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'الزامات ہر روز لگتے ہیں تاہم ان الزامات کے بعد عدالت میں ثبوت پیش کیے جاتے ہیں اور دونوں جانب کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے شواہد پیش کرنے کا موقع ملتا ہے جس کے بعد عدالت انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے'۔

انہوں نے نیب کو ایک آزاد اور خود مختار ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں 'سچائی کی جیت ہوگی'۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اداروں کی مضبوطی کے لیے کام کیا ہے جو اس سے قبل خستہ حالی کا شکار تھے۔

مزید پڑھیں: اراضی کیس: میر شکیل الرحمٰن جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

انہوں نے سوال کیا کہ 'وزیر اعظم کی حکومت میں ادارے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں تاہم گزشتہ روز کی گرفتاری کے بعد مسلسل یہ کہنا کہ حکومت نے آزادی صحافت کا قتل کردیا ہے، ان دونوں چیزوں کو جوڑنا اور احتساب ادارے کو استعمال کرکے حکومت کے خلاف اپنا ایجنڈا آگے لانا صحافت کے اصولوں کے خلاف ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم امید کرتے ہیں کہ نیب، عدالت میں شواہد پیش کرے گی جن کی بنیاد پر انہوں نے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا ہے تاکہ اس اقدام کو قانون کی نظر میں ثابت کیا جاسکے اور اسی طرح ہم میر شکیل الرحمٰن اور ان کے میڈیا ادارے سے جڑے صحافی/تجزیہ کاروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ حکومت پر حملہ کرنے کے بجائے ان کی بے گناہی کے ثبوت عدالت میں جمع کرائیں گے، عدالتیں آزاد اور خود مختار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'کیا نیب کے زیر حراست دیگر افراد کو بھی میڈیا چینلز پر بحث کا حق ہے؟ یا کیس پر بحث کریں اور تفتیشی افسران پر دباؤ ڈالیں۔'

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس معاملے پر اس لیے کوئی رائے نہیں دی تھی کیونکہ وہ اس میں پڑنا ہی نہیں چاہتی تھی، تاہم ایک میڈیا ادارے نے مسلسل وزیر اعظم اور حکومتی اداروں کو نشانہ بنایا اور ٹی وی اسکرینز پر ٹرائل کا آغاز کر رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر

ان کا کہنا تھا کہ 'اس خیال کو دور کریں، آپ ایک میڈیا ادارہ ہیں، آپ سے حکومت کو کیا دشمنی ہوگی آپ کوئی سیاسی جماعت نہیں اور نہ ہی ہمارے سیاسی مخالفین ہیں، آپ آزاد ادارہ ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی آپ کی قوت ہے'۔

عمران خان کے میر شکیل الرحمٰن کے حوالے سے گزشتہ ریمارکس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے وہ ریمارکس اس بات پر دیے تھے کہ جب جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف نے کہا تھا کہ وہ صحافت ہی ان کا ذرائع آمدن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آپ نے یہ ویڈیو چینلز پر دیکھیں، ہم انہیں دو کرداروں میں دیکھ رہے ہیں، ایک میڈیا ادارے کے سربراہ کے طور پر اور دوسرا کاروباری شخص کے طور پر، ان کے خلاف الزامات میڈیا ہاؤس کے سربراہ کے طور پر نہیں لگے۔

انہوں نے کہا کہ 'انہیں اراضی کیس میں گرفتار کیا گیا ہے، وہ نیب کے پوچھے گئے سوالات پر انہیں مطمئن نہیں کرپائے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: اراضی کیس: جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن گرفتار

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ 'میں نیب کی ترجمان نہیں ہوں اور اگر میں ہوتی تو میں کل کی گرفتاری کے بعد اس پر وضاحت دینے کے لیے آجاتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج کی پریس کانفرنس کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومت کو غیر منصفانہ طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اگر اس میڈیا ادارے نے اپنا خود مختار کردار ادا کیا ہوتا تو حکومت کو سامنے آکر اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہ پڑتی'۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024