نیا کورونا وائرس اتنی آسانی اور تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟
پاکستان میں 16 اور دنیا بھر میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے متاثر افراد کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار سے زائد جبکہ 4 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں، اور سائنسدان اب یہ جاننے کے لیے بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ اتنی آسانی سے کیسے پھیل رہا ہے۔
اور اب ایک تحقیقی مقالے میں اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی۔
جریدے جرنل نیچر میں شائع مقالے کے مطابق مختلف جینیاتی اور ساختی تجزیوں سے اس نئے وائرس کی ایک اہم خاصیت کی شناخت ہوئی ہے، جو اس کی سطح پر موجود پروٹین ہے، جس سے ممکنہ طور پر وضاحت ہوتی ہے کہ یہ انسانوں کو اتنی آسانی سے کیسے شکار کرلیتا ہے۔
واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق 20 فروری کو اس حوالے سے شائع ہوئی تھی جس میں شامل ڈیوڈ ویسلر نے بتایا 'وائرس کی منتقلی کو سمجھنا اس کے پھیلاﺅ اور مستقبل میں روک تھام کی کنجی ہے'۔
درحقیقت یہ نیا وائرس اتنی آسانی اور تیزی سے پھیل رہا ہے جتنا ایک اور کورونا وائرس سارز نہیں پھیلا تھا اور یہی وجہ ہے کہ نیا نوول کورونا وائرس سارز کے مقابلے میں 10 گنا سے زیادہ افراد کو متاثر کرچکا ہے۔
عام طور پر کسی خلیے کو انفیکٹ کرنے کے لیے کورونا وائرس ایک کانٹے جیسے پروٹین کو استعمال کرکے خلیے کو جکڑ لیتا ہے اور اس عمل سے ایک مخصوص سیل انزائمے متحرک ہوجاتے ہیں۔
نئے وائرس کے جینوم کے تجزیے سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ پروٹین دیگر کورونا وائرسز سے مختلف ہے اور خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پروٹین میزبان خلیاتی انزائمے فیورین کو متحرک کرتا ہے۔
ووہان کی ہوازونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لی ہوا کے مطابق یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ فورین متعدد انسانی ٹشوز بشمول پھیپھڑوں، جگر اور چھوٹی آنتوں میں پایا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر متعدد اعضا کو نشانہ بناسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ووہان چین کا وہ شہر ہے جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا اور اس یونیورسٹی کی 23 فروری کو شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس دریافت سے بیمار افراد میں سامنے آنے والی چند علامات جیسے جگر فیل ہونے کی وضاحت ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ سارز اور دیگر کورونا وائرسز اس نئے وائرس کی طرح فیورن کے مقامات کو متحرک نہیں کرتے۔
نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی کی 18 فروری کو شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فیورین متحرک کرنے کا عنصر اس نئے نوول کورونا وائرس کو خلیے میں داخل ہونے کے حوالے سے سارز سے بہت مختلف بناتا ہے اور اس سے وائرس کے استحکام اور منتقلی پر بھی ممکنہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
متعدد دیگر تحقیقی رپورٹس میں بھی اس عنصر کو انتہائی آسانی سے انسانوں میں اس کے پھیلاﺅ کی ممکنہ وجہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اس طرح کا عنصر ایسے وائرسز میں بھی موجود ہوتا ہے جو آسانی سے لوگوں کے درمیان پھیلتے ہیں۔
مگر کچھ سائنسدانوں کے خبردار کیا ہے کہ ایکٹیویشن سائٹ کے کردار کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جارہا ہے اور ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ہم اب تک یہ نہیں جان سکے یہ واقعی بہت بڑی دریافت ہے یا نہیں۔
دیگر سائنسدانوں نے فلو وائرسز سے فیورین کے متحرک ہونے کے عمل کا نئے کورونا وائرس سے موازنہ کیا گیا اور دریافت کیا کہ فلو وائرس کی سطح پر موجود پروٹین کورونا وائرسز پر موجود کانٹے جیسے پروٹین سے ملتا جلتا نہیں ہوتا۔
ویسے فلو وائرس بھی کم خطرناک نہیں ہوتے اور 1918 میں اسپینش فلو کی عالمگیر وبا کو سب سے زیادہ جان لیوا قرار دیا جاتا ہے جس میں بھی فیورین کے متحرک ہونے کا عنصر موجود نہیں تھا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خلیات یا جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس کی آزمائش اس ایکٹیویشن سائٹ فنکشن پر کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس ناقابل پیشگوئی ہے اور اکثر درست نظر آنے والے خیالات غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔
ویسے سائنسدانوں کی جانب سے ایسے مالیکیولز کو بھی دیکھا جارہا ہے جو فیورین کو بلاک کردیتے ہوں تاکہ ممکنہ طریقہ علاج کو تشکیل دیا جاسکے، مگر اس حوالے سے پیشرفت وبا کے پھیلاﺅ کے حوالے سے سست ہے۔
مگر ٹیکساس یونیورسٹی نے وائرس کی ایک اور خاصیت کی شناخت کی ہے جس سے بھی وضاحت ہوسکتی ہے کہ یہ نیا نوول کورونا وائرس اتنی کامیابی سے انسانی خلیات کو کیسے متاثر کرتا ہے۔
اس ٹیم کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ جب پروٹین انسانی خلیات کے ریسیپٹر کو جکڑتا ہے تو یہ بندش سارز وائرس کے پروٹین کے مقابلے میں کم از کم 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اس ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ ریسیپٹر ویکسینز یا طریقہ علاج کا ایک اور ممکنہ ہدف ہوسکتے ہیں، یعنی ایک دوا کے ذریعے ریسیپٹر کو بلاک کرکے بھی کورونا وائرس کی خلیات میں داخل ہونے کو عمل کو مشکل بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔