• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل شروع

شائع March 10, 2020
افغانستان میں موجود 13 ہزار میں سے ساڑھے 4 ہزار فوجیوں کا انخلا ہو گا — فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں موجود 13 ہزار میں سے ساڑھے 4 ہزار فوجیوں کا انخلا ہو گا — فوٹو: اے ایف پی

کابل: امریکا نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تحت پہلا قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا شروع کردیا ہے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان 18 سال سے زائد عرصے سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں پائیدار امن 29 فروری ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت امریکا نے اپنی افواج کے افغانستان سے انخلا کا عمل شروع کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان قیدیوں کی رہائی کا طریقہ کار طے پایا گیا، افغان صدر

اس معاہدے کے تحت اگلا مرحلہ بین الافغان مذاکرات کا ہوگا جس میں طالبان سمیت تمام فریقین ملک کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات کے ذریعے لائحہ عمل طے کریں گے۔

پیر کو افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ نے الگ الگ تقریبات میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا اور ان دونوں کی جانب سے حلف اٹھائے جانے کے بعد طالبان سے مذاکرات کھٹائی میں پڑتے نظر آ رہے ہیں۔

تاہم اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دیں گے اور انہوں نے طالبان سے قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا ہے اور امریکا کی جانب سے ان کے اس اعلان کو سراہا گیا ہے۔

افغان حکومت میں حالیہ افرا تفری کے باعث امن معاہدے کے حوالے سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے جہاں وہ افغانستان کی قیادت کو یکجا کر کے معاملے کے جلد از جلد حل کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اشرف غنی نے دھماکوں کی گونج میں دوسری مرتبہ افغان صدر کا حلف اٹھالیا

منگل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر زلمی خلیل زاد نے اپنے پیغام میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ حکومت کے قیام پر اتفاق ہو جائے گا، ہم تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوجی ترجمان سونی لیگیٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا نے معاہدے کے تحت 135دنوں میں اپنی افواج کم کر کے 8 ہزار 600 کرنے کا آغاز کردیا ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت امریکا کے 13 ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں جس میں سے 8 ہزار فوجی افغانستان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تربیت فراہم کرتے ہیں جبکہ دیگر 5 ہزار طالبان انسداد دہشت گردی کے آپریشنز اور افغان حکومت کی درخواست پر فوجی معاونت کو سرانجام دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: حریف صدارتی تقریبات سے مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں، طالبان

ادھر معاہدے کے مطابق افغانستان صدر نے 5 ہزار طالبان قیدی رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور باقاعدہ سرکاری حکمنامے کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا جائے گا۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے 10مارچ کو طالبان قیدیوں کی رہائی کے حکمنامہ جاری کرنے کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

طالبان حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ جیل میں موجود قیدیوں نے بتایا ہے کہ جیل میں موجود قیدیوں کے بڑی تعداد میں بائیو میٹرک کیے گئے ہیں جس سے ان کی رہائی کا عندیہ ملا ہے۔

مائیک پومپیو نے واضح کیا کہ وہ افغانستان میں مساوی حکومتوں کے قیام کے سخت مخالف ہیں جہاں پیر کو عبداللہ عبداللہ نے اپنے نمائندے کو نائب صدر کا منصب سنبھالنے کے لیے بھیج دیا تھا تاکہ وہ اشرف غنی کے نمائندے سے قبل ہی عہدہ سنبھال لے۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے سیاسی اختلافات کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے فریقین کو تحمل کے ساتھ معاملے کے حل کا مشورہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات

امریکا کے مطابق 18 ماہ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے کا بات سے تعلق ہے کہ طالبان، افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنیں گے لیکن اس معاہدے کو کہیں بھی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط قرار نہیں دیا گیا۔

دو دن قبل طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان، امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہیں اور امریکا سے قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جسے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے کا باعث سمجھا جارہا ہے۔

4 صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔

۔ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

۔ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائےگا۔

۔ طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔

۔ انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024