ذومعنیت، پھکڑ پن اور جنسیت سے دُور رہنے والے امان اللہ بہت یاد آئیں گے
کچھ خواب تھے آنکھوں میں اور ان کی تعبیر پانے کا جنون دل میں سمایا تھا، سو وہ اپنے گھر سے جب نکلا تو ایک عام سا لڑکا تھا جس کی زندگی کا مقصد محض اپنی روزانہ ضروریات کو پورا کرنا تھا۔
شہرِ لاہور میں بھاٹی چوک اور داتا دربار کے درمیان سڑکوں پر منڈلاتا ایک لڑکا، سانولا رنگ، چھریرا بدن، گھنگریالے بال، آنکھوں میں شرارت آمیز ذہانت، سر پر دھری چھوٹی سی ٹوکری میں رنگ برنگے نالے پراندے، کنگھیاں اور نہ جانے کیا کیا جو کوئی سامنے آیا اسی طرح کا سامان پیش کردیا۔
آواز میں بلا کی طنطناہٹ کہ پکار پڑتے ہی راہ چلتے متوجہ ہوجائیں کہ دیکھو تو سہی یہ کیا بیچتا ہے۔ فروخت کاری کا ہنر ایسا کہ بچ کے کوئی نہ جائے، لیکن اس کا ہنر غربت کی دھول میں اٹا تھا۔ کبھی تو دیہاڑی لگ گئی اور کبھی ’بوہنی‘ بھی نہ ہوئی۔
ایک مسیحا بھی اس کی زندگی میں در آیا تھا جو کبھی کبھار اس کی مدد کردیا کرتا تھا کہ آج اس غریب کے دام میں کوئی گاہک نہ آیا۔ ایک خوشگوار دن کو قسمت نے یاوری کی اور اسی مسیحا نے نام جس کا البیلا تھا اور وہ ایک نامور اداکار تھا اسی بھٹکتے ہوئے راہی سے کہا کہ ’یار اداکاری کرو گے؟‘
'کیا کرنا ہے'، گلیوں میں بھٹکتا سامان فروخت کرنے والا امان اللہ بولا۔
'ایک ڈرامے میں کلاسیکل گائیک کا کردار ادا کرنا ہے، کچھ اچھے پیسے مل جائیں گے،' البیلا نے کہا۔
زندگی کے ڈرامے کا پہلا منظر لکھا جاچکا تھا کہ یوں امان اللہ کے قدم الحمرا کے اسٹیج کی جانب گامزن ہوئے۔ جب اس نے اسٹیج پر قدم رکھا تو وہ اسٹیج کچھ کشادہ سا ہوگیا۔ پردہ ہٹ چکا تھا، لائٹس آن ہوچکی تھیں، ہال میں ایک ہجوم کرسیوں پر براجمان تھا۔ وہ قطعی نہ گھبرایا کیونکہ وہ اداکار بننے نہیں بلکہ وہ تو روٹی کی تلاش میں آیا تھا جو اسے لے کر جانا تھی۔
تب وہ ایک مہا گُنی کلاسیکل گائیک بن گیا۔ تانیں اڑانے لگا، گلے سے مرکیاں نکلنے لگیں، ہاتھ ہوا میں لہرا رہے ہیں اور لوگ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔ جب وہ اپنا یہ مختصر رول ختم کرچکا اور باہر آیا تو پروڈیوسر ہاتھ میں کچھ پیسے اور اگلے ڈرامے کا کانٹریکٹ لیے کھڑا تھا۔ اسٹیج کے نامور فنکار امان اللہ کا جنم ہوچکا تھا اور مزاح کی دنیا کا بادشاہ اپنی اقلیم میں آچکا تھا۔
فن کی دنیا میں کئی ایسے نامور پیدا ہوئے جو اپنے فن کے باوصف ایک علامت اور استعارہ ثابت ہوئے۔ اگر کہا جائے کہ امان اللہ کون تھا تو یہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ وہ ایک بڑا کامیڈین تھا۔ وہ کیا بات تھی جو اسے اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرگئی؟ امان اللہ کی فنکارانہ زندگی کا ایک طائرانہ جائزہ لینے سے ہی یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس نے فن کی بلندیوں کا یہ سفر کیسے طے کیا ہے؟ مزاح اور کامیڈی، فلم اور ٹی وی کا جزِ لاینفک ہے۔
پاکستان کی فلموں میں منور ظریف، رنگیلا، ننھا، علی اعجاز نے مسکراہٹ کی دھنک بکھیری ہے، ٹیلی ویژن پر کمال احمد رضوی، ننھا، ماجد جہانگیر اور اسماعیل تارا نے اپنا الگ رنگ جمایا، اسٹیج اپنے ابتدائی برسوں میں نوٹنکی ہوا کرتا تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے موجودہ شکل اختیار کرگیا۔
کراچی کا اسٹیج عمر شریف کا مرہون منت تھا اور لاہور کا اسٹیج امان اللہ کا منت پذیر ہوگیا۔ کئی جلتے بجھتے ستارے اس کے اردگرد تھے لیکن امان اللہ ماہ کامل بن رہا تھا جس کی روشنی میں اسٹیج نہا گیا اور وہ مزاح کی پہچان بن گیا۔ اب اس کا نام اور فن کی خوشبو اپنے ملک کی سرحدوں کو عبور کرنے لگی۔ پڑوسی بھارت میں اس کے پرستاروں نے کھلے بازوؤں اس کا استقبال کیا اور وہ وہاں بھی اپنے فن کے نقوش چھوڑ آیا۔
مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کے نامور اور عہد ساز مزاح نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں نے اسٹیج کے پنجابی مزاح کو مستعار لیا ہے اور اس سے متاثر ہوں۔ امان اللہ نے مختلف پاکستانی مادری لہجوں، زبانوں اور کرداروں کی سوچ کو اپنے مزاح میں اس طرح سمویا تھا کہ اسے ادا کرتے ہوئے اس کے برجستہ جملوں سے دانش و حکمت کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔
امان اللہ نے کبھی ذومعنیت، پھکڑ پن اور جنسیت کا سہارا نہیں لیا اور نہ اس نے یہ مقام پانے کے لیے کبھی شارٹ کٹ استعمال کیا۔ فنکار اپنے عہد کا استاد ہوتا ہے اور امان اللہ اس کی مجسم تصویر تھے۔
مزید پڑھیے: !پھکّڑ پن کی لوٹ سیل
امان اللہ کا فن درحقیقت مشاہدے اور گہری سوچ کا آمیزہ تھا۔ تعلیم تو اس کی واجبی سی تھی لیکن جو بھی جملہ اس کی زبان سے نکلتا، ایک فکر و آگاہی کا پرتو لیے ہوتا تھا۔ ایک بار کسی نے کہا کہ امان اللہ یہ اتنی ٹریفک، اتنا ہنگامہ کیونکر ہے۔ تو اس نے برملا کہا کہ ’ہم ایک قوم نہیں ایک ہجوم ہیں اور جن میں سانپ چھوڑے گئے ہیں کہ سب بچنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ ایک بار اس نے کہا کہ سیاست اور شوگر (بیماری) پر جس قدر بھی بحث کرلو نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
امان اللہ نے 1954ء میں گوجرانوالہ کے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن زندگی لاہور میں گزاری۔ مزاح شروع سے ہی ان کی طبیعت کا حصہ تھا۔ انہوں نے پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جس پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں 2018ء میں تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔
امان اللہ نے چند فلموں میں بھی کامیڈی کی، ٹی وی شوز میں بھی کام کیا، اسٹیج پر ان کی سیکڑوں پرفارمسز اور ان گنت مداح ہیں کہ وہ فنکاروں کا فنکار تھا۔ کئی فنکار اس کے فن سے محظوظ ہونے اور سیکھنے کے لیے اس کے آگے پیچھے رہتے تھے۔ امان اللہ نے 3 شادیاں کیں اور انہوں نے 7 بیٹے اور 7 بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔
آج امان اللہ اس دنیا سے جاچکا ہے اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کی وراثت کے امین کون ہیں۔ ہر کوئی امان اللہ بننا چاہتا ہے مگر اس جیسا جنوں، جذبہ اور مشاہدہ کس کے پاس ہوگا؟ درحقیقت اسٹیج آج غریب ہوچکا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں