• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

امریکا: کورونا وائرس سے ہلاکتیں 15 ہوگئی، متاثرین کی تعداد 300 سے تجاوز

شائع March 7, 2020
سب سے زیادہ کیسز واشنگٹن کے شہر سیئٹل اور کنگ کاؤنٹی کے ایک نرسنگ ہوم میں سے سامنے آئے — فوٹو: اے پی
سب سے زیادہ کیسز واشنگٹن کے شہر سیئٹل اور کنگ کاؤنٹی کے ایک نرسنگ ہوم میں سے سامنے آئے — فوٹو: اے پی

دنیا بھر میں پھیلنے والے نوول کورونا وائرس سے اموات اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور امریکا میں بھی رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد 301 ہوگئی ہے جبکہ ہلاکتیں 15 تک جاپہنچی ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے مغربی ساحلی علاقے میں سب سے زیادہ تیزی سے کورونا وائرس پھیل رہا ہے اور ریاست واشنگٹن میں سب سے زیادہ 80 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والے 15 افراد میں سے 14 کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہے۔

ادھر واشنگٹن کے شہر کنگ کاؤنٹی کے حکام کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران لائف کیئر سینٹر میں مقیم 15 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

سان فرانسسکو میں کروز شپ پر21 افراد وائرس سے متاثر

دوسری جانب امریکا میں سامنے آنے والے کیسز کی تعداد میں سان فرانسسکو کے ساحل کے پاس ایک بحری جہاز میں وائرس سے متاثرہ 21 افراد کے کیسز شامل نہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے متاثرہ ایرانی وزیر خارجہ کے مشیر انتقال کرگئے

اس حوالے سے امریکا کے نائب صدر مائیک پینس، جنہیں حال ہی میں امریکی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی ذمہ داری دی تھی، ان کا کہنا تھا کہ کروز شپ (بحری جہاز) گرینڈ پرنسس کو ایک نان کمرشل بندرگاہ پر لایا جائے گا جہاں تمام 2 ہزار 400 افراد اور ایک ہزار ایک سو عملے کے افراد کے دوبارہ ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

مائیک پینس کا کہنا تھا کہ تمام عملے کو کورونا وائرس کی تصدیق ہونے یا نہ ہونے کے باوجود قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس میں بریفنگ دیتے ہوئے مائیک پینس کا کہنا تھا کہ 'جن کو قرنطینہ میں رکھنے کی ضرورت ہوگی انہیں قرنطینہ میں رکھا جائے گا، جنہیں اضافی طبی توجہ کی ضرورت ہوگی انہیں وہ دی جائے گی'۔

ادھر مسافروں نے حیرت اور تشویش کا اظہار کیا کہ ٹیسٹ کے نتائج کے حوالے سے مائیک پینس کے اعلان سے قبل انہیں اطلاع نہیں دی گئی۔

61 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر اور کینسر کی مریضہ کیری کولسٹو نے ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'جو معلومات دی جارہی ہیں اس پر سب اپنی طرف سے بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میرا مطلب ہے کہ ہمیں نائب صدر کے ٹی وی پر اعلان کرنے سے قبل اس کی اطلاع کیوں نہیں تھی؟'

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کیمو تھیراپی کے لیے گھر واپس آنے کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں۔

ٹرمپ نے کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے 8 ارب ڈالر کے بل پر دستخط کردیے

امریکا میں کیسز کے اضافے کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں کورونا وائرس کی وبا سے لڑنے کے لیے 8 ارب 30 کروڑ ڈالر کے بل پر دستخط کردیے۔

نئے بل کے تحت وفاقی ادارہ صحت کو ویکسینز، ٹیسٹ اور علاج سمیت مقامی حکومت کی جانب سے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے رقم فراہم کی جائے گی۔

اٹلی میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 197 ہوگئی

دوسری جانب یورپ میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اٹلی میں کورونا وائرس سے گزشتہ 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ 49 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد وہاں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 197 ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کورونا وائرس کے 31 کیسز رپورٹ، بھوٹان میں سیاحوں پر پابندی عائد

واضح رہے کہ یہ چین کے بعد کسی بھی ملک میں اموات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

اٹلی میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا جہاں متاثرین کی تعداد 4 ہزار 636 ہوگئی، جو چین، جنوبی کوریا اور ایران کے بعد کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ کیسز کی تعداد میں چوتھے نمبر پر ہے۔

ویتنام میں 3 ہفتوں بعد ایک اور کیس سامنے آگیا

علاوہ ازیں ویتنام کے شہر ہنوئی کے چیئرمین گویان ڈوک چنگ کا کہنا تھا کہ ملک میں 3 ہفتوں میں پہلا کورونا وائرس کا کیس سامنے آگیا ہے۔

اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ نئی مریضہ 26 سالہ خاتون ہیں جنہیں بخار ہونے کے بعد ویتنامی دارالحکومت کے ایک ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مریضہ رواں ہفتے یورپ کا دورہ کرکے آئیں تھیں جہاں وہ لندن، میلان اور پیرس گئی تھیں۔

یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی ملک میں اب تک 17 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جن میں 16 علاج کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہوچکے ہیں جبکہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

فیس بک نے کورونا کیس کی تصدیق کے بعد لندن کا دفتر بند کردیا

دنیا بھر میں کورونا کے بڑھتے ہوئے خطرے کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی احتیاطی تدابیر اپنا رہی ہیں اور فیس بک کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنگاپور سے آنے والے ملازم میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد اپنا لندن کا دفتر بند کردیا۔

فیس بک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'سنگاپور کے دفتر کے ایک ملازم، جس نے حال ہی میں لندن کے دفتر کا دورہ کیا تھا، اس میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس وجہ سے اپنا لندن کا دفتر پیر تک کے لیے بند کر رہے ہیں تاکہ صفائی کی جاسکے جبکہ اس وقت تک ملازمین اپنے گھر سے کام کریں گے۔

خیال رہے کہ چین سے پھیلنے والے نئے کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک ایک لاکھ 2 ہزار سے زائد افراد متاثر اور 3 ہزار 400 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

جہاں اس بیماری سے دنیا میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے وہیں اب تک 57 ہزار افراد اس سے مکمل صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔

کورونا وائرس

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جو مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

کورونا وائرس کی مزید خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024