نوول کورونا وائرس بچوں کے لیے زیادہ خطرناک کیوں نہیں؟
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ بچے نئے نوول کورونا وائرس سے زیادہ متاثر نہیں ہورہے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں اس نئے کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد جبکہ ہلاکتیں 34 سو سے زیادہ ہوچکی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے چین میں دورے کے بعد کورونا وائرس پر رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد میں اس وائرس کی شرح بہت کم یعنی 2.4 فیصد ہے۔
درحقیقت انہوں نے دریافت کیا کہ 19 سال سے کم عمر افراد میں اس وائرس کی شدت معتدل رہی اور صرف ڈھائی فیصد کیسز میں شدت زیادہ رہی جبکہ 0.2 فیصد کی حالت سنگین ہوئی۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے 24 فروری کو بتایا تھا کہ چین میں 9 سال سے کم عمر کے کسی بچے کی پلاکت نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے نہیں ہوئی۔
ان ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کا ایک سے دوسرے انسان میں منتقلی کا عمل زیادہ تر خاندانوں کے اندر ہوا، جس کی وجہ گھروالوں کے ساتھ قربت تھی۔
ماہرین کے مطابق 20 فروری تک 56 ہزار کے قریب مصدقہ کیسز میں کورونا وائرس سے متاثر افراد کی اوسط عمر 51 سال تھی اور بیشتر کیسز میں لوگوں کی عمریں 30 سے 69 سال تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے مریضوں میں پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے خصوصاً اگر وہ کسی اور مرض جیسے فشار خون، ذیابیطس، دل کی شریانوں سے جڑے امراض، نظام تنفس کے امراض اور کینسر کا شکار ہوں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ سے جنوری میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق کے نتائج کو تقویت ملتی ہے جس میں بتایا تھا کہ ایک گروپ اس وبائی مرض سے کافی حد تک محفوظ ہے اور وہ ہے بچے۔
طبی جریدے 'نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن' میں شائع تحقیق میں نوول کورونا وائرس سے سب سے پہلے متاثر ہونے والے 425 افراد کا تجزیہ کیا گیا اور ان میں سے کوئی بھی 15 سال سے کم عمر نہیں تھا۔
اس وقت مریضوں کی اوسط عمر 59 سال تھی اور جنوری کے وسط تک سب سے کم عمر ہلاک ہونے والے مریض کی عمر 36 سال تھی۔
اس تحقیق میں ابتدائی مریضوں کی جانچ پڑتال سے اس وائرس کے بارے میں اشارے ملتے ہیں کہ یہ کیسا ہے اور کون اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔
یہ تحقیق دیگر کورونا وائرسز جیسے 'سارس' سے موازنے کے لیے ایک اور نکتہ بھی فراہم کرتا ہے۔
امریکا کی وینڈربلیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق کے مطابق 2003 میں چین سے پھیلنے والے سارس کے شکار افراد میں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد ڈرامائی حد تک کم تھی اور 13 سال سے کم عمر بچوں میں اس کی شدید علامات بھی زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوئی تھیں۔
اور ایسا ممکن ہے کیونکہ بائیولوجی کے اصولوں کے مطابق بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں میں نوول کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوسکتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے خلیات اس وائرس کے لیے زیادہ اچھے میزبان نہیں ہوتے اور کورونا وائرس کے لیے اپنی نقل بنانے اور دوسرے افراد میں منتقل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
محققین نے مزید بتایا کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر ان میں علامات بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ شدید نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں طبی نگہداشت کی کم ضرورت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رویہ وائرس والے دیگر امراض میں بھی نظر آتا ہے کیونکہ ارتقائی طور پر ہم اس طرح کے حالات سے متاثر ہونے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں اور بڑے ہونے پر مدافعتی نظام زیادہ پھیلتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکا میں سیزنل فلو کے دوران متعدد بچے انفلوائنزا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس مرض سے بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کی اموات بہت کم ہوتی ہیں۔
طبی ماہرین کے خیال میں بچوں کا ماحول ممکنہ طور پر اس حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے، یعنی بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں عام کورونا وائرسز کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے، جس سے ان کے اندر ایک مخصوص قسم کی مدافعتی طاقت پیدا ہوسکتی ہے مگر وہ زندگی بھر ساتھ نہیں رہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر بچے بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور بیماری سے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں جبکہ ویکسینیشن کا عمل بھی بچوں میں اپ ٹو ڈیٹ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زندگی کے معمولات لوگوں کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جیسے ہاتھوں کی اچھی صفائی مددگار ہوتی ہے، صحت بخش غذا کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، چاہے وائرس کوئی بھی ہو، مگر اچھے معمولات صحت مند رکھ سکتے ہیں۔