سپریم کورٹ: رائل پارک عمارت کو گرانے کے حکم کیخلاف نظرثانی درخواست مسترد
سپریم کورٹ نے کراچی میں الہ دین پارک سے متصل زیر تعمیر رائل پارک عمارت کی لیز منسوخ کرنے اور گرانے کے حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواست مسترد کردی۔
کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے رائل پارک عمارت کی نظرثانی اپیل کر سماعت کی۔
واضح رہے کہ رائل پارک کے مالک ناصر حسین عبداللہ لوتھا نے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔
مذکورہ اپیل پر آج سماعت ہوئی تو رائل پارک عمارت کے وکیل اور متاثرہ افراد کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران وکیل رائل پارک عمارت نے کہا کہ انہوں نے سب نوٹیفکیشن لگا دیے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کی لیز میں زمین کا تبادلہ لکھا ہوا ہے، کون سی زمین سے تبادلہ کیا ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تبادلہ غلطی سے لکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: لوگوں نے اپنے ابّا کی زمین سمجھ کر عمارتیں بنائیں، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، چیف جسٹس
اسی دوران متاثرین کی جانب سے پیش ہونے والے بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ بلڈرز نے جو اربوں روپے کمائے ہیں وہ ہم سے کمائے ہیں، متاثرین کہاں جائیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، بلڈرز کھیل کھیلتے ہیں، پیسے سے پیسے کماتے ہیں، اس پر متاثرین کے وکیل نے کہا کہ یہی بات ہم کہہ رہے ہیں کہ بلڈرز نے کمالیا، ہم کہاں جائیں۔
سماعت کے دوران رائل پارک کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمارت کی منظوری قانون کے مطابق ہوئی، ناصر حسین عبداللہ لوتھا نے قانون کے مطابق زمین خریدی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دستاویزات پڑھیں، سروے نمبر ہے ہی نہیں آپ کے پاس، 2010 میں زمین ایک دم سے آپ کو مل گئی اور سروے نمبر بھی نہیں۔
اس پر وکیل رائل پارک نے بتایا کہ ناصر حسین لوتھا دبئی کے حکمران طبقے سے ہیں، وہ اب تک 5 ارب روپے لگا چکے، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر کوئی دبئی کا حکمران ہے تو ہم کیا کریں، ہمیں تو قانون دیکھنا ہے، ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ زمین قانونی طور پر منتقل ہوئی یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی 5 کھرب روپے کا بھی سرمایہ لگا دے لیکن ہم قانون کو دیکھیں گے، غیرقانون کام غیر قانونی ہے۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی حیثیت ثابت کردیں، ہمیں کسی سے کیا لینا دینا، تاہم بعد ازاں عدالت کو مطمئن نہ کرنے پر عدالت نے ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز و نظرثانی سے متعلق درخواست مسترد کردی۔
دوران سماعت عدالت نے متاثرین کا معاملہ بھی سنا اور ان کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اس عمارت کے 417 الاٹیز ہیں، ایک ارب 30 کروڑ روپے الاٹیز دے چکے ہیں، بلڈر کو تو فائدہ ہے، عمارت ٹوٹنے سے مزید رقم بلڈر نہیں لگائے گا۔
انہوں نے کہا کہ الاٹیز کو پتہ نہیں تھا کہ یہ لیز غلط ہے، الاٹیز نے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا این او سی اور لیز کاغذات دیکھے۔
ساتھ ہی ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اس معاملے کا بحریہ کی طرز پر ہر حل نکالا جا سکتا ہے، اس میں سرکاری خزانے کا جو بھی نقصان ہوا ہے وہ پورا کیا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الاٹیز کی رقم واپسی اور دیگر معاملات کو بعد میں دیکھیں گے۔
ساتھ ہی عدالت نے رائل پارک عمارت کو گرانے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ لیز منسوخ کرکے تعمیرات توڑی جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے 3 ماہ میں فعال کرنے کا حکم
یاد رہے کہ 6 فروری 2020 کو عدالت عظمیٰ نے الہ دین پارک کے قریب زیرتعمیر عمارت اور دیگر غیر قانونی تعمیرات کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے اسے گرانے کا حکم دیا تھا۔
مذکورہ سماعت پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ سرکاری زمین کو لیز کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے تاہم دو ایکڑ زمین دینے کا تمام عمل غیر قانونی ہے آپ (درخواست گزار) کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ زمین آپ کو دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ زمین 2010 میں ہورٹی کلچر کے لیے دی گئی تھی۔