کورونا وائرس سے 9 سال پرانی فلم کی مقبولیت میں اضافہ
کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں چین میں تو نمایاں کمی آئی ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک جیسے اٹلی، جنوبی کوریا، ایران، برطانیہ اور امریکا میں مریضوں اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے نتیجے میں ایک بار پھر 9 سال پرانی ایک ہولی وڈ فلم وائرل ہوگئی ہے اور اس کی وجہ یہ نیا نوول کورونا وائرس اور اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 ہے۔
ڈائریکٹر اسٹیون سودربرگ کی 2011 کی تھرلر فلم 'کونٹیجن' کو کورونا وائرس کے نتیجے میں پہلے جنوری میں نئی زندگی ملی تھی اور اب امریکا میں کیسز اور اموات کی شرح بڑھنے سے ایک بار پھر یہ مووی رینٹل چارٹ پر سرفہرست ہوگئی ہے۔
درحقیقت یہ فلم حیران کن حد تک یہ کورونا وائرس کے پھیلاﺅ سے کافی ملتی جلتی ہے۔
کورونا وائرس کا خوف پھیلنے سے لوگوں کے اندر اس فلم کے بارے میں تجسس بڑھا ہے جو کہ ایک افسانوی عالمگیر وبا سے متعلق ہے جس سے دنیا بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
فلم کو ریلیز کرنے والے اسٹوڈیو وارنر برادرز کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں یہ فلم اس کے کیٹلاگ ٹائٹلز میں 270 ویں نمبر پر تھی، مگر 2020 کے آغاز سے یہ چھلانگ لگا کر دوسرے نمبر پر پہنچ چکی ہے اور اس سے آگے بس ہیری پوٹر موویز ہی ہیں۔
یہ فلم ایمیزون پرائم ویڈیو اور آئی ٹیونز کی ٹاپ 10 فہرست میں بھی موجود ہے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس سے اب تک 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں یہ پھیل رہا ہے، عالمی ادارہ صحت نے اسے جنوری کے آخر میں عوامی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ وائرس کس حد تک عالمی سطح پر اثرانداز ہوسکتا ہے اور اس کے لیے وہ فلموں کا رخ کررہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ کونٹیجن میں دکھائے جانے والا وائرس کووڈ 19 کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا تھا۔
فلم کے پروڈیوسر مائیکل شیمبرگ کے مطابق 'ہم نے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ مرنے جارہے ہیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ لوگ میں ایسا خوف ہو کہ انہیں آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہیے، یہ دانستہ طور پر انتباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی فلم ہے، ہم نے سائنس کو درست انداز میں دکھایا ہے'۔
اس فلم کا آغاز ایک خاتون سے ہوتا ہے جو ہانگ کانگ سے واپس مینیسوٹا ایک عجیب بیماری کے ساتھ واپس لوٹتی ہے، چند دنوں میں اس کی موت ہوجاتی ہے، جس کے بعد اس کے شوہر اور دیگر میں وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں بلکہ دنیا بھر میں وبا پھیل جاتی ہے۔
اس فلم میں بدترین منظرنامے کی دہلا دینے والی جھلک دکھائی گئی ہے کہ کس طرح افواہیں اور تشویش پھیلتی ہے اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، قرنطینے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار اور خالی ائیرپورٹس کے مناظر ریڑھ کی ہڈی میں سردلہر دوڑا دیتے ہیں۔
اس فلم کی کاسٹ بھی زبردست ہے جس میں میٹ ڈیمین، کیٹ ونسلیٹ، جوڈی لا، لورین فشنبرن، ماریون کوٹیلارڈ اور برائن کرانسٹن شامل ہیں۔
2017 میں آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم مون لائٹ کے رائٹر اور ڈائریکٹر بیری جینکس نے 13 ڈالرز خرچ کرکے اس فلم کو دوبارہ دیکھا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا 'میرے اندر تجسس یہ تھا کہ اس فلم میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے کس حد تک درست ہے، اور وہ فلم ہلا دینے والی تھی، مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک ڈاکومینٹری دیکھ رہا ہوں، جس میں تمام فلمی ستارے حقیقی انسان ہیں، اس نے مجھے خوفزدہ کردیا'۔
فلم میں وائرس کو ایم ای وی 1 کا نام دیا گیا تھا جس کا آغاز ایشیا سے ہوتا ہے اور آسانی سے کسی آلودہ چیز کو چھونے سے منتقل ہوجاتا ہے (اس کو دیکھنے کے بعد آپ کو ہوسکتا ہے کہ دروازے کی ناب سے بھی خوف محسوس ہو)، جس کی پہلی علامت کھانسی تھی۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح لوگ معاشرتی طور پر الگ تھلگ ہوجاتے ہیں اور معمولات زندگی بدل کر رہ جاتے ہیں جبکہ سائنسدانوں کو ویکسین کی تیاری کے لیے ہر ممکن کوشش اور کامیاب ہوتے دکھایا گیا جبکہ سازشی خیالات کے پھیلاﺅ کو بھی دکھایا گیا جیسا آج کی دنیا میں بھی ہوتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ فلم حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے۔
وائرس کے پھیلاﺅ کی پیشگوئی کرنے والی دیگر فلمیں
مگتر یہ واحد فلم نہیں جو اس طرح کے وبائی مرض کے احوال کو بیان کرتی ہے بلکہ ایسا کئی بار پردہ اسکرین میں دیکھنے میں آیا ہے۔
ہولی وڈ میں اکثر زومیبز کی فوج کا باعث بننے والی وبا پر فلمیں جیسے دی اومیگا مین، ورلڈ وار زی اور Pandemic ریلیز ہوئی ہیں۔
مگر کچھ کہانیوں میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ انسانیت کے وجود کو جوہری ہتھیاروں نہیں بلکہ جراثیمی قاتل سے خطرہ لاحق ہے جس کی ابتدائی مثال تو 1971 کی فلم دی اینڈرومیڈا اسٹرین ہے جس کی ایک ایک کتاب سے اخذ کی گئی تھی اور اس کا خیال کئی بار فلمایا گیا جس میں دکھایا جاتا کہ کیسی سائنس اور ٹیکنالوجی پیشرفت انسانیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اسی طرح کے موضوعات پر مبنی 2 فلمیں کافی نمایاں ہیں جن میں سے ایک 1995 کی 12 منکیز ہے، جو ایک سائنس فکشن فلم ہے جس میں ٹائم ٹریول کے ذریعے پلیگ وائرس کی روک تھام دکھائی گئی ہے جو بیشتر انسانوں کا خاتمہ کردیتا ہے۔
دوسری فلم آﺅٹ بریک تھی جس میں ہوا میں موجود وائرس افریقہ سے امریکا اسمگل ہوکر پہنچتا ہے اور اس کو پھیلنے کے لیے سائنسدان وقت کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔
ایسی صرف فکشن کہانیاں ہی نہیں بلکہ گزشتہ سال نیشنل جیوگرافک نے دی ہاٹ زون نامی حقائق پر مبنی سیریز نشر کی تھی جس میں 1989 میں ایبولا کے نمودار ہونے اور امریکی فوجی سائنسدانوں کی جانب سے اس کے ممکنہ اثرات کو درآمد شدہ بندروں کی مدد سے واشنگٹن پر کام کرنے جیسے مضوعات کو دکھایا گیا۔
تبصرے (1) بند ہیں