• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

جنسی ہراسانی کا الزام: گومل یونیورسٹی کے پروفیسرز سمیت 4 ملازمین برطرف

شائع March 5, 2020
—فوٹو: گومل یونیورسٹی
—فوٹو: گومل یونیورسٹی

خیبر پختونخواہ کے ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم گومل یونیورسٹی کی انتظامیہ نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر 2 پروفیسرز اور عملے کے 2 ملازمین کو ان کی ملازمت سے برطرف کردیا۔

جامعہ کے ڈپٹی رجسٹرار کے دفتر سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ چاروں ملازمین پر الزام ثابت ہونے پر ان کے خلاف فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: گومل یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس کا تشدد 'شرمناک عمل' قرار

علاوہ ازیں ڈپٹی رجسٹرار نے بیان میں کہا کہ اسسٹنٹ پروفیسر عمران قریشی، پروفیسر ڈاکٹر بختیار خان، گیم سپروائزر حکمت اللہ اور لیب اٹینڈنٹ حفیظ اللہ کو 3 مارچ کو 'جنسی طور پر ہراساں کرنے' کا الزام ثابت ہونے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کیا گیا۔

گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر چوہدری محمد سرور نے بتایا کہ برخاست کیے جانے والے اساتذہ اور عملے کے ممبران 'طالبات کو ہراساں کررہے تھے اور ان میں سے متعدد نے ملازمین کے خلاف تحریری درخواستیں جمع کرائیں تھیں' جس کے بعد یونیورسٹی نے اس معاملے کی تحقیقات کی۔

محمد سرور نے یہ بھی کہا کہ چار دیگر سینئر فیکلٹی ممبروں کی طرف سے بھی مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کی تحقیقات اپنے آخری مرحلے میں ہے اور جلد ہی رپورٹ کو یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اجلاس میں پیش کیا جائےگا۔

واضح رہے کہ نجی ٹی وی نے گومل یونیورسٹی کے پروفیسر حافظ صلاح الدین کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات کے پیش ان کے خلاف اسٹنگ آپریشن کیا تھا، بعدازاں ان سے جبراً استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: پولیس سے جھڑپ میں درجنوں طلبہ گرفتار

وائس چانسلر نے تصدیق کی کہ انتظامیہ نے ان ویڈیوز کا جائزہ لینے اور انہیں 'بے حیائی اور غیر اخلاقی' ہونے کے بعد پروفیسر حافظ صلاح الدین سے استعفی دینے کو کہا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے گومل یونیورسٹی خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ ماہ گومل یونیورسٹی میں انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر پولیس کے تشدد اور ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس کی رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما محسن داوڑ نے شدید مذمت کی تھی۔

محسن داوڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں یونیورسٹی میں پرامن مظاہرین کے خلاف پولیس تشدد اور طلبہ تنظیموں سے وابستہ کارکنوں کی گرفتاری کو قابل مذمت اور شرمناک حرکت قرار دیا تھا۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان: احتجاج کرنے والے اساتذہ کو ایک سال قید،5 لاکھ جرمانہ تجویز

علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل نے بھی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گومل یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج اور مؤقف کی حمایت کی تھی۔

جس پر گومل یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسٹرار ظاہر شاہ نے کہا تھا کہ طلبہ کے 16 مطالبات میں سے 14 مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود وہ شہر کی اہم سڑکوں پر مستقل احتجاج کر رہے ہیں جس کے باعث امن و امان کی صورتحال کا خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔

طلبہ نے فیس میں کمی کے علاوہ دیگر مطالبات کیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024