ماروی سرمد کو گالی دے کر اپنا بدلہ لیا، خلیل الرحمٰن قمر
ڈراما نویس خلیل الرحمٰن قمر نے 3 مارچ کی شب نجی ٹی وی ’نیو‘ کے پروگرام ’آج عائشہ احتشام کے ساتھ‘ عورت مارچ پر بحث کے دوران معروف خاتون سماجی رہنما ماروی سرمد کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا تھا جس پر انہیں خوب تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
خلیل الرحمٰن قمر نے براہ راست پروگرام میں بات کرتے ہوئے ماروی سرمد کو ’گھٹیا عورت‘ کہنے سمیت ان کے خلاف انتہائی نامناسب زبان استعمال کی تھی اور انہیں ’جسم کے طعنے‘ بھی دیے تھے۔
پروگرام میں بات کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر نے کہا تھا کہ ’اگر عدالت نے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے غلیظ نعرے کو استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے تو وہ جب ماروی سرمد جیسی خواتین کو اس پر بات کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کا کلیجہ ہلتا ہے‘۔
خلیل الرحمٰن قمر کے اسی جملے کے دوران ماروی سرمد نے ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ لگایا تو خلیل الرحمٰن قمر ایک دم غصے میں آگئے اور انہوں نے پہلی بار ہی ماروی سرمد کو سخت لہجے میں تنبیہ کی کہ ’درمیان میں نہ بولیں‘۔
جس پر ماروی سرمد نے ایک بار پھر ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ لگایا تو خلیل الرحمٰن قمر مزید غصے میں آگئے اور انہوں نے انتہائی بدتمیزی سے خاتون رہنما کو بولا کہ ’بیچ میں مت بولو تم، تیرے جسم میں ہے کیا، اپنا جسم دیکھو جاکے‘۔
یہ بھی پڑھیں: خلیل الرحمٰن قمر کا ماروی سرمد کیخلاف نازیبا زبان کا استعمال
ماروی سرمد کے خلاف ایسی زبان استعمال کیے جانے پر کئی سیاستدانوں، اداکاروں، سماجی رہنما اور دیگر افراد نے بھی خلیل الرحمٰن قمر کے رویے کی مذمت کی اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی کہ ڈراما نویس کا بائیکاٹ کیا جائے اور اسے کسی پروگرام میں نہ بلایا جائے۔
لیکن 4 مارچ کی شب خلیل الرحمٰن قمر کو نجی ٹی وی ’ایکسپریس‘ نے اپنے پروگرام ’ٹو دی پوائنٹ ود منصور علی خان‘ میں بلایا، جہاں ٹی وی میزبان نے ڈراما نویس کی ذاتی سوچ پر بھی اختلاف کیا۔
پروگرام کے میزبان منصور علی خان کے رویے سے بھی کئی افراد نے اختلاف کیا۔
پروگرام میں خلیل الرحمٰن قمر نے بھی میزبان کو جانبداری پر تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں یاد دلایا کہ وہ کسی کی طرفداری کرنے کے بجائے غیر جانبدار رہ کر ان سے سوالات کریں اور ان کی ذاتی رائے کا احترام کریں، نہ کہ ان کی ذاتی رائے سے اختلاف کرکے ان پر اپنی مرضی تھونپیں۔
پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈراما نویس نے ماروی سرمد کے خلاف نامناسب زبان استعمال کیے جانے کے معاملے پر بات کی اور کہا کہ انہوں نے خاتون رہنما کو اپنا بدلہ لینے کے لیے ’گالی دی‘۔
مزید پڑھیں:خلیل الرحمٰن کے نامناسب جملوں پر ٹی وی انتظامیہ کی ماروی سرمد سے معذرت
خلیل الرحمٰن قمر نے دلیل دی کہ پروگرام میں ماروی سرمد ان کی باری اور سینیٹر مولوی فیض محمد کی باری میں بھی بولتی رہیں اور انہیں کھل کر بولنے نہیں دیا جا رہا تھا جب کہ انہوں نے خاتون کی بات آرام سے سنی تھی۔
ڈراما نویس کے مطابق انہوں نے ماروی سرمد کے خلاف اس وقت ہی نامناسب زبان استعمال کی جب کہ خود خاتون نے پہلے ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔
خلیل الرحمٰن قمر کا کہنا تھا کہ ماروی سرمد نے انہیں ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ کہا تب ہی انہوں نے پہلے خاتون کو ان جیسا ہی جواب دیا، یعنی انہوں نے بھی ابتدائی طور پر ماروی سرمد کو صرف ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ ہی کہا مگر وہ نہ مانیں اور انہیں بار بار ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ کہتی رہیں تو انہوں نے خاتون کے خلاف نامناسب زبان استعمال کی۔
ڈراما نویس نے دعویٰ کیا کہ ان کے لیے ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ بھی گالی ہے اور انہوں نے اسی گالی کے بدلے ہی ماروی سرمد کو دیگر جوابات دیے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ انہیں ماروی سرمد کے خلاف کی گئی باتوں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور نہ ہی وہ سمجھتےہیں کہ ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے، اس لیے وہ کسی سے کوئی معافی نہیں مانگیں گے۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر کوئی انہیں ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ جیسی بھی گالی دے گا تو وہ اپنا دفاع کرنے کے لیے انہیں گالی دیں گے اور ان کے ایسے رویے کا ان کے لکھاری ہونے سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ وہ ہر وقت لکھاری نہیں بلکہ ایک عام انسان ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح خواتین اپنی مرضی کے تحت ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے نعرے کو درست مانتی ہیں، اسی طرح وہ اس نعرے کو غلط تسلیم کرتے ہیں اور وہ کیوں غلط تسلیم کرتے ہیں، اس کا جواب دینا لازمی نہیں ہے، کیوں کہ یہ ہر کسی کی اپنی رائے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’خلیل الرحمن قمر! تم نے مَردوں کے سر شرم سے جھکادیے‘
انہوں نے کہا کہ وہ کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ جیسے نعرے کو وہ کیوں درست مانتے ہیں بلکہ وہ اس پر اپنی رائے دیتے ہیں اور اس نعرے کو غلط مانتے ہیں اور وہ کسی کو اس کی وضاحت کرنے کے پابند نہیں ہیں کہ وہ اس نعرے کو کیوں غلط مانتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ ایک فحش نعرہ ہے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ جو ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ پھر اس نعرے کے حوالے سے عمر اور سال کا تقاضا بھی کرتے ہیں، یعنی وہ واضح تو کریں کہ خاتون کو کتنی عمر کے بعد اپنے جسم پر اپنی مرضی چلانی چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ وہ خواتین کے سب سے بڑے حمایتی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ شادی سے قبل خواتین سے مرضی پوچھی جانی چاہیے، انہیں جائیداد میں حصہ دینا چاہیے، انہیں ہر طرح کا لباس پہننے کا اختیار ہو، انہیں تعلیم دی جانی چاہیے اور انہیں بھی دوسرے انسان کی طرح خودمختاری حاصل ہو۔
پروگرام کے دوران میزبان نے ایک بار پھر خلیل الرحمٰن قمر سے سوال کیا کہ اگر وہ ماروی سرمد کے خلاف استعمال کی گئی زبان پر معافی مانگنا چاہیں تو ان کے پاس اب بھی موقع ہے، جس پر انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ انہوں کچھ غلط نہیں کیا، وہ کسی سے کیوں معافی مانگیں؟
’خلیل الرحمٰن قمر ایک ٹکے کے بھی نہیں رہے‘
پروگرام کے دوران اداکارہ ریشم نے بھی خلیل الرحمٰن قمر پر تنقید کی اور کہا کہ وہ گزشتہ روز سے مسلسل خواتین کے خلاف نازیبا زبان استعمال کیے جا رہے ہیں اور ’دو ٹکے کی عورت‘ کا ڈائیلاگ لکھنے والے لکھاری آج خود ایک ٹکے کے بھی نہیں رہے۔
اداکارہ ریشم نے کہا کہ ڈراما نویس کو ان کے کام کی وجہ سے سراہا جاتا رہا ہے اور لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے تاہم انہوں اپنی عزت خود ختم کی۔
اداکارہ نے کہا کہ خلیل الرحمٰن قمر نے جس طرح ماروی سرمد کے خلاف زبان استعمال کی، کیا وہ اسی طرح کی زبان اپنے گھر کی خواتین کے لیے استعمال کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ خلیل الرحمٰن قمر نے ایک عورت کو دو ٹکے کی عورت دکھایا، کل کو وہ کسی کی ماں، بیٹی اور بہن کو بھی دو ٹکے کی دکھا سکتے ہیں۔
’خلیل الرحمٰن قمر کو ذہنی علاج کی ضرورت ہے‘
پروگرام کے دوران بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی اور ٹی وی اینکر عامر لیاقت حسین نے بھی خلیل الرحمٰن پر تنقید کی اور کہا کہ کل تک تو وہ انہیں ایک ’بدتمیز‘ انسان سمجھتے تھے مگر آج انہیں لگتا ہے کہ ڈراما نویس کو ’میڈیکل ٹریٹمنٹ‘ کی ضرورت ہے۔
عامر لیاقت کا کہنا تھا کہ ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ کے بدلے ماروی سرمد کو گالی دینے کے خلیل الرحمٰن قمر کے دلائل عقل سے ماورا اور بے ہودہ ہیں۔
سابق ٹی وی میزبان کے مطابق ’شٹ اپ‘ (خاموش ہوجائیں‘ پر خلیل الرحمٰن قمر کو غصہ آجانے اور خاتون کےخلاف نامناسب زبان استعمال کیے جانے کے وقت ڈراما نویس انہیں گلی میں کرکٹ کھیلنے والے بچوں کی طرح دکھائی دیے کیوں کہ وہ تھوڑی سی بات پر کھیل ختم کرکے چلےجاتے ہیں یا لڑ پڑتے ہیں۔
عامر لیاقت حسین نے کہا کہ کسی کو بھی رنگ، نسل، جسم، مذہب اور عادتوں کی وجہ سے ان پر تنقید نہیں کرسکتے اور ان کےلیے نازیبا استعمال نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے دلیل دی کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ جیسے نعرے کو کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر ہر کسی کا اپنا رایا ہو سکتا ہے اور کسی کے رائے سے دوسرے کا متفق ہونا ضروری نہیں اور اس معاملے پر ایک دوسرے کو متفق کرنے کی بحث کرنا بھی ضروری نہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں