عالمی ادارہ صحت، کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے پاکستانی اقدامات کا معترف
اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقامی سربراہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے چلینج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششیں کئی ممالک سے بہتر ہیں۔
خیال رہے کہ نوول کورونا وائرس (COVID-19) دنیا کے 73 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے 90 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 3 ہزار 115 ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسلام آباد میں ڈبلیو ایچ او کے مرکزی دفتر میں ادارے کے کنٹری ہیڈ ڈاکٹر پلیتھا مہیپالا نے کہا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک کے برعکس پاکستان نے 2 ہفتوں میں نہ صرف کورونا وائرس کی تشخیص کی سہولت حاصل کی بلکہ ملک کے 5 مختلف مقامات پر بھی اسے متعارف کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے 10 کروڑ روپے کی منظوری دے دی
انہوں نے کہا کہ امریکا، ہانگ کانگ اور ہالینڈ میں صرف 3 لیبارٹریز میں اس وائرس کے ٹیسٹ کی صلاحیت موجود ہے جبکہ پاکستان نے 2 ہفتوں کے اندر یہ صلاحیت حاصل کی اور اب ملک کے 5 مختلف علاقوں میں یہ ٹیسٹ مفت کیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک میں ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں جس کی وجہ سے وہ نمونے دیگر ممالک ارسال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر پلیتھا مہیپالا نے کہا کہ اگرچہ دنیا کے 73 ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں تاہم زیادہ ممالک میں صرف چند کیسز ہی سامنے آئے جبکہ سب سے بڑی تعداد چین اور دیگر چند ایک ممالک میں رپورٹ ہوئی‘۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ ممالک مثلاْ جنوبی کوریا، اٹلی اور ایران میں انسان سے انسان میں وائرس منتقل ہونے کی وجہ سے کیسز کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے متعلق پاکستان میں پھیلنے والی افواہیں
ڈبلیو ایچ او کے مقامی سربراہ کے مطابق وائرس سے بیمار ہونے والے زیادہ تر افراد بغیر کسی بڑی پیچیدگی کے صحتیاب ہوجاتے ہیں، تقریباً 19 فیصد مریضوں کو تشویشناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہلاکت کی شرح 2 سے 4 فیصد کے درمیان ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اس مسئلے سے بہت اچھی طرح نمٹا ہے اس لیے چین میں کیسز کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
ساتھ ہی ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ الزام تراشیاں کہ کچھ ممالک نے رپورٹڈ کیسز کو چھپایا ہے ختم ہونی چاہیے کیوں کہ ’انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن 2005‘ کے تحت تمام رکن ممالک تصدیق کے فوراً بعد کیسز کا اعلان کرنے کے پابند ہیں۔
اس کے ساتھ انہوں کو لوگوں کو بھی ہدایت کی کہ جن ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد زیادہ ہے وہاں کا سفر کرنے سے گریز کریں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس کے پانچویں کیس کی تصدیق
پاکستان میں رپورٹ ہونے والے 5 کیسز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈبلیو ایچ او کے کنٹری ہیڈ کا کہنا تھا کہ یہ مثبت اشارہ ہے کیوں کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے نگرانی کا نظام بہت سخت کیا ہوا ہے جس کی وجہ کسے بغیر کسی تاخیر کے کیسز کو شناخت کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت وائرس کے خلاف کوششوں کی حمایت کررہا ہے اور ذاتی حفاظتی اشیا (پی پی ای) مثلاْ ٹائیویک گاؤن، ماسکس، دستانے وغیرہ ملک کے ہسپتالوں میں فراہم کیے جارہے ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے پاکستان میں داخلے کے 19 مقامات پر ہرشخص کی اسکریننگ یقینی بنانے، ملک بھر میں 5 قرنطینہ مقامات قائم کرنے اور آئیسولیشن وارڈز میں 600 بستر مختص کرنے پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹڑ ظفر مرزا کو سراہا۔
عالمی ادارہ صحت کے عہدیدار نے میڈیا سے آگاہی پھیلانے اور مثبت کردار ادا کرنے کی درخواست کی تا کہ کوئی پریشان نہ ہو۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے پیشِ نظر چمن پر پاک-افغان سرحد 7 روز کیلئے بند
احتیاطی تدبیر کے حوالے سے ڈاکٹر پلیتھا مہیپالا نے بتایا کہ ہاتھوں کی صفائی اس بیماری سے بچنے کا بہترین حفاظتی اقدام ہے جبکہ لوگوں کو غیر ضروری سفر سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے سفر کرنے والے افراد کو تجویز دی کہ اگر انہیں نمونیا جیسی علامات کا سامنا ہے تو فوری طور پر طبی ماہرین سے رابطہ کرنا چاہیے، ہر کسی کو ماسک کی ضرورت نہیں لیکن جنہیں کھانسی نزلہ ہے انہیں لازمی ماسک پہننے چاہئیں تا کہ دیگر اس سے محفوظ رہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نوول کورونا وائرس کے علاج کے لیے ویکسین ایجاد کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ڈبلیو ایچ او اس سلسلے میں متعدد اداروں کے ساتھ کام کررہا ہے۔
یہ خبر 4 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔