• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

آئی ایم ایف اقتصادی اصلاحات کے عمل میں شراکت دار ہے، گورنر اسٹیٹ بینک

شائع March 3, 2020 اپ ڈیٹ March 4, 2020
گورنر اسٹیٹ بینک نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ دی—فائل/فوٹو:ڈان
گورنر اسٹیٹ بینک نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ دی—فائل/فوٹو:ڈان

اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ مہنگائی کم ہوگی تو شرح سود پر نظر ثانی کا راستہ ملے گا جبکہ رواں مالی سال میں مہنگائی کی اوسط شرح 11 سے 12 فیصد رہے گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور سینئر رہنما رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے اراکین کو بریفنگ دی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے بریفنگ میں کہا کہ یقین ہے کہ مہنگائی کم ہوگی تو شرح سود پر نظر ثانی کا راستہ ملے گا اور مانیٹری کمیٹی مہنگائی کی صورت حال کو مد نظر رکھ کر شرح سود پر نظر ثانی کا فیصلہ کرتی ہے۔

بریفنگ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف کا ہماری پالیسیوں میں کتنا عمل دخل ہے جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ آئی ایم ایف اقتصادی اصلاحات کے عمل میں شراکت دار ہے اور ان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:آئی ایم ایف، حکومت 45 کروڑ ڈالر کے اجرا کیلئے اقدامات پر متفق

ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں مہنگائی کی اوسط شرح 11 سے 12 فیصد رہے گی جبکہ مہنگائی میں حالیہ اضافہ عارضی تھا جو سپلائی متاثر ہونے سے ہوا، اس کے علاوہ روپے کی قدر کم ہونے سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ سال میں ڈالر 105 روپے سے 162 روپے تک پہنچا، روپے کی قدر گرتی ہے تو درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں، ایکسچینج ریٹ اور سود کے ریٹ کا آپس میں تعلق ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کئی ماہ سے فارن کرنسی اکاؤنٹس ہولڈرز روپے کے سیونگ اکاؤنٹس میں منتقل ہورہے ہیں۔

روپے کی قدر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جولائی کے بعد روپے کی قدر میں استحکام آیا جبکہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی بنیاد پر کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اصلاحات کا عمل شروع کیا تو خزانہ خالی تھا لیکن گزشتہ 8 ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں ساڑھے 9 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور اسی دوران ایک ارب ڈالر سکوک کی ادائیگی بھی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل پھاڑ کر پھینک دے اور دوبارہ مذاکرات کرے، بلاول

رضا باقر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور خزانہ خالی نہیں ہوگا تو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت کسی کے پاس بھی جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

’ہاٹ منی کے حوالے سے غلط فہمی پائی جاتی ہے’

گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ہاٹ منی کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں حالانکہ ماضی میں کئی مرتبہ ہاٹ منی پاکستان آچکی ہے اس لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں، عالمی سرمایہ کار اسٹاک یا بانڈز خریدتے ہیں اور پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں جہاں ہاٹ منی آئی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ عالمی سرمایہ کار صرف انٹرسٹ ریٹ نہیں بلکہ ایکسچینج ریٹ بھی دیکھتے ہیں، اب تک 3 ارب ڈالرز کی ہاٹ منی آئی ہے جو ہمارے قرض کا محض 5 فیصد بنتا ہے۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ ہاٹ منی والوں کے نام بتائے جائیں، جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہاٹ منی کا علم ہوتا ہے کہ کہاں سے کس ملک سے پیسہ آرہا ہے اور اسٹیٹ بینک کی ویب سائیٹ پر ان ممالک کا نام لکھا ہوتا ہے جہاں سے پیسہ آرہا ہوتا ہے۔

رضا باقر نے کہا کہ بڑی صنعتوں کی ترقی میں بہتری کا آغاز ہو گیا ہے، مقامی سیمنٹ کی فروخت میں گراوٹ کا عمل بھی رک جاچکا ہے اور مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں:سینیٹ اجلاس: اپوزیشن کا آئی ایم ایف سے مذاکرات سے متعلق آگاہ نہ کرنے پر شدید احتجاج

رضا باقر نے کہا کہ ہاٹ منی برطانیہ، امریکا، متحدہ عرب امارات اور لگسمبرک سے آئی ہے اور یہ پہلے ایک ماہ کی قلیل مدت کے لیے آئی ہے جس کی مدت اعتماد بڑھنے سے تین ماہ اور پھر ایک سال تک بڑھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مالی نظم و ضبط کو فروغ دیا ہے اور رواں مالی سال میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ لوگ ٹیکس سے بچنے کے لیے بینکوں سے پیسہ نکال رہے ہیں جبکہ غذائی مہنگائی پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی تاہم اب مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ 17 فروری 2020 کو سینیٹ میں اپوزیشن نے آئی ایم ایف سے مذاکرات سے متعلق ایوان کو آگاہ نہ کرنے پر شدید احتجاج کیا تھا اور آئی ایم ایف کی جانب سے چین سے متعلق دیے گئے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے خود مختاری پر وار قرار دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024