• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

افغانستان کے ساتھ باہمی مسائل کے حل کیلئے امریکا کی ضرورت نہیں، وزیر خارجہ

شائع March 2, 2020
امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا وعدہ کیا ہے— فائل فوٹو:ٹوئٹر
امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا وعدہ کیا ہے— فائل فوٹو:ٹوئٹر

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان سے متعلق تحفظات امریکا کو شامل کرنے کے بجائے باہمی طور پر حل کیے جائیں گے۔

انہوں نے یہ بات افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا-افغان مشترکہ اعلامیے کے تناظر میں کہی۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلامیہ ہفتے کے روز افغان صدر اشرف غنی، امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ نے دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے سے مطابقت پر ایک تقریب میں جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

اس اعلامیے کی ایک شق میں کہا گیا کہ ’امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا وعدہ کیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں ممالک میں سے کسی کی سیکیورٹی کو دوسری طرف کی سرزمین سے کسی بھی کاروائی کا خطرہ نہ ہو‘۔

شاہ محمود قریشی نے رائٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کے افغانستان سے فوجی انخلا کے ارادے کے پیش نظر کہا کہ ’انہیں پاکستان سے براہ راست مذاکرات کرنے چاہیے کیونکہ امریکا، انخلا کی منصوبہ بندی کررہا ہے جبکہ ہم ہمیشہ پڑوسی رہیں گے‘۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’اگر مجھے افغانستان سے کوئی مسئلہ ہوا تو میں واشنگٹن سے کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہوں گا‘۔

مزید پڑھیں: امریکا ماضی کی طرح افغانستان کو نظر انداز نہ کرے، وزیر خارجہ

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان سالوں سے جھگڑتے آئے ہیں، کابل کی جانب سے سرِ عام پاکستان پر طالبان رہنماؤں کو 2001 میں ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد پناہ فراہم کرنے اور بین الاقوامی اور افغان فورسز کے خلاف حملے کرنے کے لیے محفوظ مقامات بنانے کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے اور افغانستان پر پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے پناہ دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے اور اس بات کی کابل تردید کرتا رہا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ اعتماد کی کمی موجود ہے اور پاکستان نے اعتماد کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی طرف دیکھنے کے بجائے ایک ادارہ جاتی میکانزم موجود ہے جس کے ذریعے افغانستان ’کوئی بھی مسئلہ‘ اٹھا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان امن معاہدہ: ناقدین بھی پاکستان کے معترف ہوگئے، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ نے کہا کہ دوحہ میں ہونے والے امریکا- طالبان کبھی نہ ہوتا اگر پاکستان ہر کسی کو اس بات پر قائل نہ کرتا کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔

یاد رہے کہ دوحہ معاہدے پر امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے کے تحت امریکا نے 14 ماہ کے عرصے میں افغانستان سے افواج کے مکمل انخلا کا وعدہ کیا ہے جبکہ اس کی اتحادی افواج بھی اس پر عمل کریں گی جبکہ طالبان نے پرتشدد کارروائیاں روکنے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے والی عسکری تنظیموں سے تعلقات ختم کرنے کا عزم کیا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024