• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

نیپرا کا وزیراعظم سے توانائی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ

شائع March 2, 2020
نیپرا نے وزیراعظم سے سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
نیپرا نے وزیراعظم سے سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

اسلام آباد: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وزیراعظم عمران خان سے قومی توانائی ہنگامی صورتحال (پاور ایمرجنسی) نافذ کرنے کا مطالبہ کردیا۔

اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم سے 19 کھرب 30 ارب روپے کا گردشی قرضہ کم کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جو کہ ریگولیٹر کے مطابق محکمہ توانائی کی جانب سے بتائی گئی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں وزیراعظم کو دی گئی پریزینٹیشن میں ریگولیٹر نے بتایا کہ محکمہ توانائی کی 10سے 12 ارب روپے ماہانہ اوسط کی رپورٹ کے برخلاف مالی سال 19-2018 کے دوران 41 سے42 ارب روپے کی ماہانہ اوسط سے گردشی قرض 4 کھرب 92 ارب روپے تک بڑھ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 800 ارب روپے کے گردشی قرضے کو سرکاری قرض میں تبدیل کرنے کا فیصلہ

خیال رہے کہ 2 ہفتے قبل ایک اعلامیے میں محکمہ توانائی کی جانب سے 31 دسمبر 2019 تک کا تازہ قابل ادا اور پی ایچ پی ایل (پاور ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ) میں پہلے سے موجود مجموعی گردشی قرض 17 کھرب 82 ارب روپے بتایا گیا تھا۔

بعدازاں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کو دی گئی ایک پریزینٹیشن میں محکمہ توانائی نے پی ایچ پی ایل کے 8 کھرب 7 ارب روپے سمیت 31 جنوری 2020 تک کا گردشی قرض 18 کھرب 82 ارب روپے بتایا تھا۔

رپورٹس کے مطابق محکمہ توانائی کی قیادت اور عالمی بینک کے نمائندوں کی موجودگی میں نیپرا کے چیئرمین توصیف ایچ صدیقی نے وزیراعظم کو بتایا کہ ریگولیٹر، محکمہ توانائی کی جانب سے گردشی قرضوں میں کمی، بل کلیکشن اور نظام کی بہتری کی رپورٹس سے اتفاق نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں: گردشی قرض کے کنٹرول کیلئے حکومت کا مزید 200 ارب روپے قرض لینے کا منصوبہ

ریگولیٹر نے رپورٹ کیا کہ 31 دسمبر 2019 تک گردشی قرض 18 کھرب 56 ارب روپے تھا جو جنوری کے اختتام تک 19 کھرب 26 ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔

ساتھ ہی نیپرا نے یہ بھی بتایا کہ 4 کھرب 92 ارب روپے کے گردشی اضافے میں 3 کھرب 25 ارب روپے توانائی کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے ہیں، جس میں ایک کھرب 32 ارب روپے ریکوریز کی کمی (100 فیصد کے بجائے 90 فیصد)، تاخیری ادائیگی کے ایک کھرب 50 ارب روپے، 33 ارب روپے توانائی کمپنیوں کے نقصانات کے ہدف پر پور نہ اترنے کی صلاحیت اور 10 ارب روپے نا اہل پیداواری کمپنیوں کی وجہ سے شامل ہیں۔

علاوہ ازیں نیپرا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ جون 2016 میں گردشی قرض میں اضافے کی ماہانہ اوسط اپنی کم ترین سطح یعنی 3 ارب 25 کروڑ روپے پر پہنچ گئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’توانائی شعبے میں ملک کا گردشی قرضہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا‘

نیپرا کے مطابق جون 2017 تک ماہانہ اوسط 10 ارب 80 کروڑ روپے تھی جو جون 2018 تک 25 ارب 58 کروڑ روپے ہوئی اور جون 2019 تک 41 ارب روپے تک جا پہچنی، دسمبر 2019 میں یہ معمولی کمی کے ساتھ 39 ارب 67 کروڑ روپے ہوگئی تھی لیکن جنوری 2020 میں گردشی قرض میں اضافے کی ماہانہ اوسط میں دوبارہ اضافہ ہوا اور یہ 42 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔

قومی توانائی ہنگامی صورتحال

نیپرا نے حکومت کو فوری بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کے لیے توانائی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کے تحت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے اور ان سے ریکوریز میں اضافے کو یقینی بنانے کے لیے لیبر یونینز پر پابندی لگانے اور کوئی توانائی منصوبہ درآمدی ایندھن سے نہ چلانے کی تجویز دی گئی۔

نیپراکے مطابق تمام توانائی کمپنیوں کو مکمل طور پر ریگولیٹری تعمیل پر مبنی طریقہ کار پر منتقل ہوجانا چاہیے اور ان کی انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو گورننس بہتر بنانے، اصلاح پر توجہ مرکوز کرنے اور پبلک سیکٹر کی پیدواری کمپینوں کی بندش کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مقرر کرنا چاہیے۔

ریگولیٹر کے مطابق 8 حرارتی بجلی گھروں (تھرمل پاور پلانٹس)، 3 ایل این جی بجلی گھروں، 3 کوئلے کے بجلی گھروں اور 2 جوہری توانائی کے منصوبوں کے لیے 53 ارب روپے سالانہ قرض کی ری اسٹرکچرنگ کرنے کی بھی تجویز دی گئی۔

مزید پڑھیں: نئی حکومت کو گردشی قرضوں سے نمٹنے کیلئے قرضہ لینا پڑے گا

ریگولیٹر نے سب سے اہم تجویز یہ دی کہ 2025 تک ایل این جی کے ٹھیکوں کی پرائس اوپننگ اور 2030 تک مقداری وعدوں پر دوبارہ بات چیت اور قابلِ تجدید توانائی پالیسی پر عملدرآمد تیز کیا جائے۔

علاوہ ازیں یہ بھی کہا گیا کہ توانائی کمپنیوں کو نظام کے رکاوٹ کے کسی بہانے کے بغیر 100 فیصد میرٹ پر عمل کرنا چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024