• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

سابق آرمی چیف کے بھائی نے نیب کے الزامات مسترد کردیے

شائع March 1, 2020
احتساب عدالت نے گزشتہ سال جنوری کے مہینے میں اربوں روپے کے اسکینڈل میں انہیں اشتہاری ملزم قرار دیا تھا — فائل فوٹو:ڈان
احتساب عدالت نے گزشتہ سال جنوری کے مہینے میں اربوں روپے کے اسکینڈل میں انہیں اشتہاری ملزم قرار دیا تھا — فائل فوٹو:ڈان

لاہور: سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے بھائی اور ڈی ایچ اے سٹی اسکینڈل میں اشتہاری ملزم کامران کیانی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کراتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے خود پر لگے الزامات کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت نے گزشتہ سال جنوری کے مہینے میں اربوں روپے کے اسکینڈل میںکامران کیانی کو اشتہاری ملزم قرار دیا تھا۔

کامران کیانی نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ ندیم کوثر کے ذریعے عدالت میں جمع کرائی گئی 2 درخواستوں میں کہا کہ 'مجھے نیب نے غیر قانونی طریقے سے 2 ریفرنسز میں شامل کیا'۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت نے کامران کیانی سمیت دیگر ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا

اس کے علاوہ کامران کیانی کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل میں بھی ریفرنس کا سامنا ہے۔

احتساب عدالت نے کامران کیانی کو 2016 میں اشتہاری ملزم قرار دیا تھا جبکہ نیب ان کے ٹھکانے کا علم نہیں رکھتی تھی۔

ڈی ایچ اے سٹی اسکینڈل میں نامزد دیگر 2 ملزمان میں حماد ارشد اور بریگیڈیئر (ر) خالد نذیر بٹ پر پہلے ہی فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔

نیب نے الزام لگایا کہ ہے حماد ارشد کی گلوبکو (پرائیوٹ) لمیٹڈ نے ڈی ایچ اے سٹی کے قیام کے لیے 25 ہزار کنال اراضی حاصل کرنے کے لیے 2009 میں ڈی ایچ اے-ای ایم ای سے معاہدہ کیا تھا۔

تاہم کمپنی متفقہ اراضی حاصل کرنے میں ناکام رہی اور الاٹمنٹ لیٹر جاری کیا اور لوگوں سے تقریبا 15 ارب 47 کروڑ روپے جمع کیے۔

ملزم نے مبینہ طور پر یہ رقم اپنے نجی اکاؤنٹس میں منتقل کردی تھی اور وہی رقم دیگر کاروبار میں استعمال کی تھی۔

خالد نذیر بٹ ڈی ایچ اے سٹی کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اور ان پر حماد ارشد کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کرنے کا الزام عائد ہے۔

نیب نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ کامران کیانی کی الیزیم ہولڈنگز پاکستان لمیٹڈ ان تمام معاملے میں سہولت کار اور اسکینڈل سے فائدہ اٹھانے والی کمپنی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ ریفرنس: کامران کیانی، خالد حسین اور ندیم ضیا کے وارنٹ گرفتاری جاری

آشیانہ ریفرنس بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے خلاف وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہتے ہوئے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر بنا تھا۔

نیب کا کہنا تھا کہ پنجاب لینڈ ڈیولپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کے انفراسٹرکچر کی تعمیرات کا کنٹریکٹ کامیاب بولی لگانے والے ایم/ایس چوہدری عبدالطیف اینڈ سنز کو 2013 میں دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ایل ڈی سی نے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے ایڈوانس کے طور پر کنٹریکٹر کمپنی کو جاری بھی کیے جبکہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے بولی کےعمل پر کوئی شکایت نہیں کی گئی۔

تاہم شہباز شریف نے غیر قانونی طور پر کسی نامعلوم شکایت پر مداخلت کرتے ہوئے پی ایل ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اختیارات حاصل کیے اور معاملہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو بھیج دیا جس کی وجہ سے بولی جیتنے والے کنٹریکٹر کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

بیورو کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کونپرو سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ نامی کمپنی جس نے شکایت درج کرائی تھی، نے مبینہ طور پر سیکریٹری پنجاب فواد حسن فواد کو رشوت دی تھی اور بیورو کے مطابق شکایت گزار کمپنی کامران کیانی کی تھی۔

تاہم اپنی درخواست میں کامران کیانی نے الزامات کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ آشیانہ اسکیم کے لیے بولی میں انہوں نے شرکت ہی نہیں کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور فواد حسن فواد نے کنٹریکٹ منسوخ نہیں کیا تھا بلکہ کنٹریکٹر کمپنی خود اس سے دستبردار ہوئی تھی۔

ڈی ایچ اے سٹی کے حوالے سے انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ نیب کے چیئرمین نے غیر قانونی طور پر ریفرنس میں انہیں نامزد کیا تھا۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنی کمپنی حماد ارشد کو فروخت کردی تھی اور عدالت ان کے خلاف نیب کی تمام کارروائیاں ختم کرے۔

کامران کیانی کی درخواست پر جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل 2 رکنی بینچ 2 مارچ کو سماعت کرے گا۔

رجسٹرار نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا ہے اور اس کی وجہ درخواست گزار کا اشتہاری ملزم ہونا بتائی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024