افغان امن عمل: تمام فریقین معاہدے کی پاسداری کریں گے، اشرف غنی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے کے حوالے سے کہا ہے کہ تمام فریقین اس معاہدے کی پاسداری کریں گی۔
کابل میں چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور دیگر افغان حکام کے ہمرا پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ‘نائن الیون کے سانحے سے ہم یکجا ہوئے اور مشترکہ قربانیوں سے باہمی طور پر منسلک ہوئے’۔
انہوں نے افغانستان میں جنگ میں جانی نقصان کا ذکر کیا اور حاضرین سے درخواست کی کہ افغان جنگ کے دوران جاں بحق ہونے والے بزرگوں، خواتین، بچوں اور جوانوں کے لیے چند لمحے خاموشی بھی اختیار کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ نسل نے آنے والے افغان بچوں کے لیے قربانی دی ہے اور دو دہائیوں سے افغانستان کے ایک کروڑ افراد نے نقل مکانی اور دیگر تکلیفیں برداشت کیں۔
مزید پڑھیں: امریکا اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا
اشرف غنی نے کہا کہ 'ہم افغان حکومت اور عالمی برادری، طالبان کے ساتھ تنازع کا حل چاہتے ہیں، ہم امن قائم کرنے کے لیے سیاسی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ ہم نے مقابلہ کیا ہے اور ہماری معیشت میں صلاحیت ہے، اسی طرح ہماری ریاست کے پاس بھی صلاحیت ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اتفاق رائے کے لیے جرگہ اور دیگر راستے اپنائے گئے اور ہم ایک اسٹیک ہولڈر سوسائٹی بن گئے، ہماری نتیجہ خیز گفتگو باہمی رابطوں، آئین، آزادی اور قومی شناخت میں بدل گئی'۔
افغان صدر نے کہا کہ '2018 کی تاریخی جنگ بندی کے دوران ہمارے معاشرے نے شاندار مستقبل کی جانب عملی مظاہرہ کیا اور ہزاروں طالبان جنگجوؤں کے ساتھ بغیر کسی ناخوش گوار واقعے کے مذاکرات ہوئے'۔
افغانستان میں امن کے قیام کے لیے گزشتہ برسوں میں ہونے والی کوششوں کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہمارے علما امن کے چمپیئن ہیں، ہمارے علما نے 2018 کی جنگ بندی کے لیے راستہ بنایا، امن اور جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے فتویٰ جاری کیا اور طالبان نے اس کو تسلیم کیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مستحکم ملک اور ہمارے مستقبل کے لیے امن ضروری ہے اور 40 سال کی کشیدگی کا خاتمہ ہمارے معاشرے کا بنیادی مقصد ہے اور امن عمل، اس مقصد کے لیے ضروری ہے'۔
اشرف غنی نے کہا کہ 'ہم پرعزم ہیں کہ امن پر قومی اتفاق رائے ہوگا، یہ عزم پانچ سال کی مشاورت، علما، خواتین اور نوجوان کی جانب سے دی گئی امید سے پیدا ہوا ہے، 2019 کا لویہ جرگہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو قومی سطح پر یکجا کیا اور امن کی امید دلائی'۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے معاہدہ ہونے جارہا ہے، معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے پر امریکی سیکریٹری دفاع کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:افغان امن عمل میں پیش رفت: ’طالبان کی پُرتشدد واقعات میں کمی کی پیشکش‘
اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان اور دیگر برادر ملکوں کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کے لیے افغانستان کے عوام نے بے پناہ بڑی قربانیاں دی ہیں۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ 'صدر کو آئین کی جانب سے دیے گئے اختیارات کے دائرے میں کام کرنا ہے اور ہمیں امن کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت کو سمجھنا ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ معاہدہ افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے جارہا ہے اور 'تمام فریقین امن معاہدے کی پاسداری کریں گے جو مذاکرات سے حاصل ہوگا، پھر قوم پارلیمنٹ، لویہ جرگہ یا ریفرنڈنم کے ذریعے فیصلہ کرے گی'۔
امن کے قیام کے لیے ہونے والے معاہدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کا ہر شہری امن عمل کا اسٹیک ہولڈر ہے اور ہم اگلے سات دنوں میں فیصلہ کن مذاکرات کریں گے تاکہ متوازن اتھارٹی قائم کی جائے'۔
خیال رہے کہ اسی دوران قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں قیام امن کے لیے معاہدے پر دستخط ہوئے، جہاں افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور افغان نمائندے ملا عبدالغنی برادر نے معاہدے پر دستخط کیے۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائیں تو امریکا اور اس کے اتحادی آئندہ 14 ماہ کے اندر اپنی تمام افواج افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ آئندہ 135 دن کے اندر 8 ہزار 600 غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہوگا جبکہ آئندہ 14 ماہ کے اندر افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کی واپسی مکمل ہوجائے گی۔
اعلامیے کے مطابق طالبان انٹرا افغان مذاکرات کے تناظر میں سیکڑوں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔