• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

امریکا، طالبان معاہدے کی وہ معلومات جو ہم جانتے ہیں

شائع February 29, 2020
دوحہ میں معاہدے پر طالبان کے سیاسی دفتر میں دستخط کیے جائیں گے جہاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے مذاکرات جاری تھے — فائل فوٹو:بشکریہ ریڈیو پاکستان
دوحہ میں معاہدے پر طالبان کے سیاسی دفتر میں دستخط کیے جائیں گے جہاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے مذاکرات جاری تھے — فائل فوٹو:بشکریہ ریڈیو پاکستان

امریکا اور طالبان کے درمیان مجوزہ معاہدے پر آج دستخط کیے جائیں گے جس سے اُمید کی جارہی ہے کہ افغانستان میں تقریباََ 2 دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوگا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور یہ امریکا کی تاریخ سب سے طویل ترین جنگ ثابت ہوئی۔

اس کی اہم تفصیلات یہ ہیں:

معاہدہ ہے کیا؟

اس معاہدے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر میں دستخط کیے جائیں گے جہاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے مذاکرات جاری تھے۔

سینئر طالبان رہنما سمیت امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اس میں شریک ہوں گے جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اس موقع پر موجود ہوں گے۔

مزید پڑھیں: طالبان رواں ماہ کے اختتام تک امریکا سے معاہدہ کیلئے پرامید

افغان حکومت کے جونیئر وزرا بھی اس وقت دوحہ میں موجود ہیں جبکہ امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور نیٹو سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹین برگ معاہدے کے دستخط کیے جانے کے وقت افغان دارالحکومت کابل میں موجود ہوں گے۔

معاہدے میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی جسے انٹرا افغان مذاکرات کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے تحت ستمبر 2011 کے حملے کے بعد امریکی قیادت میں فورسز کا افغانستان پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کا خاتمہ ہوگا۔

ہفتے کے روز ہونے والے معاہدے سے طالبان کے القائدہ جیسے دیگر مسلح تنظیموں کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت نہ دینے کے بدلے ہزاروں امریکی فوجیوں کا انخلا کی اُمید کی جارہی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوگا؟

امریکا-طالبان معاہدے سے امریکا اور اتحادی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلا کا آغاز ہوگا اور طالبان کو افغان حکومت اور دیگر سیاسی و سول سوسائٹی کی تنظیموں سے بات کرنا ضروری ہوگا تاکہ ملک بھر میں مستقل جنگ بندی ہوسکے اور افغانستان میں جنگ کے بعد اختیارات میں حصہ داری ہوسکے۔

امریکا کی طویل ترین جنگ کے بعد فوجیوں کو واپس بلانے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رواں سال صدارتی انتخابات میں بھی فائدہ پہنچے گا۔

تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ امریکا کو اپنے تقریباً 12 ہزار سے 14 ہزار فوجیوں اور افغان فورسز کی تربیت، معاونت اور مشاورت کے لیے موجود 37 ممالک کے 8 ہزار 500 فوجیوں کے انخلا کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بامعنی مذاکرات سے قبل طالبان کے حملوں میں نمایاں کمی دیکھنا چاہتا ہوں، ٹرمپ

معاہدے کے تحت 6 ملکوں سے جڑے افغانستان میں مغربی قوتوں کو اپنے فوجی اڈے قائم رکھنے کی اجازت ہوگی۔

طالبان کمانڈرز کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ معاہدے پر دستخط ہوگئے تو ان کی تنظیم ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کردے گی جس کے بدلے میں طالبان کو اُمید ہے کہ افغان حکومت ان کے 5 ہزار جنگجوؤں کو رہا کرے گی۔

اگلا قدم

مذاکرات کاروں کے لیے اگلا قدم ملک کے مستقبل کے لیے معاہدے پر کام کرنا ہے جس میں اس کے انتظامات کیسے چلائے جائیں گے اور طالبان کا کیا کردار ہوگا، وغیرہ شامل ہیں۔

حکام اور ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سے سنگین چیلنجز سامنے آئیں گے۔

اب تک مذاکرات امریکا اور طالبان کے درمیان تھے اور صدر اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت نے اس سے دور رکھے جانے کی شکایت کی تھی۔

طالبان سے مذاکرات سے قبل افغان حکومت کے دو اہم سیاسی حریفوں، اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو یہ تنازع حل کرنا ہوگا کہ کونسے حکام، اپوزیشن اراکین اور سماجی رہنما طالبان سے مذاکرات کریں گے۔

یہ عمل گزشتہ ماہ اس وقت پیچیدہ ہوگیا تھا جب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے متنازع 28 ستمبر کو ہونے والے انتخابات پر جیت کا دعویٰ کیا تھا۔

یہ معاہدہ ہوا کیسے؟

طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی باتیں افغان اور امریکی رہنماؤں کی جانب سے ایک دہائی سے کی جارہی تھیں تاہم اس میں تیزی اس وقت آئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے افغانی نژاد سفیر زلمے خلیل زاد کو افغانستان کا خصوصی سفیر تعینات کیا۔

زلمے خلیل زاد نے طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کیے اور اہم طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے لیے متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ بھی کیا۔

مذاکرات میں پیش رفت متعدد مرتبہ رک گئی تھیں جن میں سب سے اہم ستمبر کے مہینے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ رہی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے کابل میں حملے کے بعد مذاکرات منسوخ کردیے ہیں۔

اس حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مذاکرات کا دوبارہ آغاز 2019 کے آخر میں ہوا جو 7 روز کے لیے 'تشدد میں کمی' کے معاہدے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا اور نتیجتاً آج دوحہ میں معاہدے پر دستخط ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024