ادلب میں 'شامی فورسز' کا فضائی حملہ، 33 ترک فوجی ہلاک
شام کے صوبے ادلب میں مبینہ طور پر حکومتی فوج کے حملے میں 33 ترکی فوجی ہلاک ہوگئے جس پر واشنگٹن کی جانب سے مذمت کا اظہار کیا گیا جبکہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے خطرے میں اضافے کا انتباہ جاری کردیا گیا۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ادلب کے شمال مغربی علاقوں میں باغیوں کے حمایتی انقرہ اور دمشق کے اتحادی روس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہونے کے کچھ ہفتوں بعد یہ بھاری جانی نقصان سامنے آیا۔
خیال رہے کہ روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی فورسز کی جانب سے جنگ زدہ ملک میں آخری مزاحمتی علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کیے جارہے ہیں جہاں 30 لاکھ افراد مقیم ہیں۔
اس سلسلے میں ترکی کی جانب سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ادلب میں فوجیں بھیجنے کے بعد سے یہ سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کردیا
اس ضمن میں ترکی کے صوبے ہاتے کے گورنر رحیم دوگان نے بتایا کہ زخمی ہونے والے درجنوں فوجیوں کو علاج کے لیے ترکی لے جایا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فضائی حملے سے زخمی ہونے والے کسی بھی ترک فوجی کی حالت تشویشناک نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سال 2018 کے ایک معاہدے کے تحت روس ادلب میں سیف زون قائم کرنے کا ذمہ دار ہے جہاں ترکی کی 12 نگرانی چوکیاں موجود ہیں لیکن ان میں سے متعدد کو شام کے صدر بشارالاسد کی فورسز نے آگ لگادی تھی۔
ادلب پر ہونے والے حملے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے انقرہ میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں معاون اعلیٰ نے بتایا کہ ترک فوج نے فضائی حملے کے بعد تمام معلوم ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر ترک عہدیدار نے بتایا کہ فضائی حملے کے ردِ عمل میں ترکی شامی مہاجرین کو یورپ پہنچنے سے نہیں روکے گا۔
مزید پڑھیں: ترکی کا شام میں مقاصد کے حصول تک آپریشن جاری رکھنے کا اعلان
خیال رہے کہ ترکی میں تقریباً 37 لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں اور وہ متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ وہ مزید مہاجرین کو نہیں سنبھال سکتا، سال 2016 میں ایک معاہدے کے تحت یورپی یونین نے یورپ میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے انقرہ کو اربوں یورو مدد دینے پر اتفاق کیا تھا۔
ترکی نے شام میں ہزاروں فوجیوں اور بھاری فوجی ساز و سامان بھیج دیا ہے اور ترک صدر نے شامی فوجیوں کی جانب سے ترک نگرانی چوکیاں خالی نہ کرنے تک بڑے پیمانے پر حملے کا انتباہ دیا ہے۔
حالیہ حملے کے بعد رواں ماہ ہلاک ہونے والے ترک فوجی اہلکاروں کی تعداد 53 ہوگئی ہے۔
اقوامِ متحدہ، امریکا کا ردِ عمل
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے شمال مغربی شامل میں کشیدگی پر ’سنگین تحفظات‘ کا اظہار کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
اقوامِ متحدہ کی ترجمان اسٹیفن دجارک نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’سیکریٹری سنگین خدشات کے ساتھ شمال مغرب شام میں کشیدگی اور فضائی حملے میں ترک فوجیوں کی ہلاکت کی رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں کردوں پر حملہ کیوں کیا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’سیکریٹری جنرل نے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ دہرایا اور فوجی کشیدگی سے شہریوں کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا کیوں کہ کسی فوری ایکشن کے بغیر وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدید جھڑپ کا خطرہ بڑھ رہا ہے‘۔
ادھر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے اپنے نیٹو اتحادی ترکی کا ساتھ دیا اور ’اسد حکومت، روس اور ایرانی حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے قابلِ مذمت جارحانہ حملے فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا‘۔
اس ضمن میں نیٹو کے سربراہ جین اسٹولٹین برگ نے ’اس خطرناک صورتحال‘ میں تمام فریقین پر کشیدگی کم کرنے کے لیے زور دیا۔
خیال رہے کہ ترکی شامی حکومت پر ادلب میں قائم ترکی کی نگرانی چوکیاں چھوڑنے کے لیے زور دیتا ہے جبکہ ماسکو انقرہ پر شام میں ’دہشت گردوں کی معاونت’ کا الزام عائد کرتا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی فورسز کی جانب سے ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں سے علاقے کا قبضہ لینے بعد سے ترک سرحد کے نزدیک کم از کم 10 لاکھ افراد دربدر ہوگئے ہیں جو 9 سال کے عرصے میں بدترین انسانی بحران ہے۔
روس کا جنگی بحری جہاز شام بھیجنے کا اعلان
علاوہ ازیں روس نے ترک فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ترکی کو قرار دیتے ہوئے شام کے ساحل پر کروز میزائل سے لیس 2 جنگی بحری جہاز بھیجنے کا اعلان کردیا۔
مزید پڑھیں: شام: ترکی کے کرد ٹھکانوں پر حملے، 8 جنگجوؤں سمیت 15 افراد ہلاک
روسی وزارت دفاع سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انقرہ نے روسی فوج کے ساتھ معمول کے رابطے ہونے کے باوجود ماسکو کو شیلنگ سے متاثرہ علاقے میں ترک فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔
روسی وزارت دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ترک فوجوں کو شامی حکومت مخالف باغیوں کے ٹھکانوں کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا لیکن انقرہ کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق علاقے میں کوئی ترک فوجی نہیں تھا۔
روس نے کہا کہ ترک فوجیوں کو وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا اور بتایا کہ واقع کے وقت روس نے علاقے میں کوئی فضائی کارروائی نہیں کی بلکہ جب روس کو ترک فوجیوں کی موجودگی کا علم ہوا اس نے ہر ممکن مدد کی۔
تبصرے (1) بند ہیں