حکومت کیماڑی میں پراسرار گیس کا سراغ لگانے میں ناکام، رپورٹ کمیٹی میں پیش
حکومت نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے سامنے کراچی کے علاقے کیماڑی میں پھیلی پراسرار گیس سے متعلق ابتدائی رپورٹ پیش کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ تاحال گیس کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کا اجلاس رکن اسمبلی عامر مگسی کی زیر صدارت ہوا جہاں وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) نے شرکت کی اور تفصیلات سے آگاہ کیا۔
وفاقی وزیر علی زیدی نے کمیٹی کو بتایا کہ کیماڑی میں زہریلی گیس کے حوالے سے اتوار کی رات ساڑھے 10 بجے فون آیا کہ لوگوں کو سانس لینے میں تکلیف ہے اور قریبی ہسپتال میں داخل کرادیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:کیماڑی میں ہلاکتوں کی وجہ فیومگیشن ہوسکتی ہے، ماہرین
انہوں نے کہا کہ ریلوے کالونی سے ملحقہ علاقے سے زیادہ شکایات آئیں اور شہریوں کو سانس کی تکلیف اور گندی بو اور متلی کی شکایات تھیں۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ نیوی کے ادارے سے معاملے کا سراغ لگانے کی درخواست کی اور انہیں کہا گیا کہ فوری طور پر اس معاملے کا پتہ کریں اور میں فوری طور پر ہسپتال پہنچا اور ڈاکٹروں سے مریضوں کی شکایات سے متعلق معلوم کیا۔
صوبائی حکومت سے اس معاملے پر تعاون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وزیر ناصر حسین شاہ سے بھی رابطہ کیا اور انہوں نے کہا کہ انتظامیہ آپ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی جبکہ ڈاکٹر عاصم سے بھی دو مرتبہ رابطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ایک کیمیکل کا جہاز کھڑا تھا، اس سے قبل کسی نے سویابین کے جہاز کی وڈیو بنائی کہ دیکھیں گیس لیک ہو رہی ہے، میں سویابین کے جہاز کے مقام پر بھی گیا۔
گیس کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسٹم ہاؤس کے بند ہونے کا پتہ چلا تو ہم نے کسٹم ہاؤس کا دورہ کیا، جب وہاں پہنچے تو وہاں بدبو تھی اور آنکھیں بھی جل رہی تھیں لیکن کراچی پورٹ آپریشن کسی بھی وقت بند نہیں ہوا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نیوی نے بیسمنٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے بیسمنٹ کو چیک کرنے کا کہا جس کے بعد ایک دم سے گیس پھیلنے کی اطلاع ملی۔
مزید پڑھیں:کراچی: 'زہریلی گیس' سے ہلاکتوں کی تعداد 7 ہوگئی،وزیراعلیٰ کا علاقہ خالی کرانے کا حکم
علی زیدی نے کمیٹی کو بتایا کہ کیماڑی میں پیش آنے والے واقعات کی وجوہات کیا تھیں، تاحال معلوم نہیں ہو سکا، اب بھی پتہ نہیں چل رہا کہ گیس کا مسئلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان سے بھی بات کی اور امن و امان کا مسئلہ بھی بن رہا تھا جس کے لیے رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کی۔
اپنی وزارت کے اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 18 فروری کو کمشنر کراچی کو معاملے سے متعلق خط لکھا گیا، وہی خط میڈیا کو بھی دیا گیا جبکہ گیس کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاز جہاں سے لوڈ ہوا تھا وہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور جہاز کے عملے میں شامل کسی بھی رکن کو کچھ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ گیس کا مسئلہ کسٹم ہاؤس کی بیسمنٹ میں ہوا، دیوار کے پیچھے کیمیکل کے ٹینکس ہیں اور لوگوں نے وہاں پیٹرولیم مصنوعات بھی رکھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی میں 'زہریلی گیس' کے اخراج سے اموات کی تعداد 14 ہوگئی
علی زیدی نے کہا کہ 10 شہریوں کے انتقال کی رپورٹس ہیں، اس قسم کے واقعات ماضی میں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رونما ہو چکے ہیں اور اس معاملے کا سراغ لگانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پورا علاقہ لینڈ فل ہے، نیچے پلاسٹک ہیں یا کیا اور کون سی گیس نکل رہی ہے ہمیں اس حوالے سے کچھ نہیں پتہ۔
اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے بات کی جس پر علی زیدی اور ان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
علی زیدی نے قادر پٹیل سے کہا کہ آپ مجھ پر الزام نہ لگائیں بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ سے بات کریں۔
قادر پٹیل نے کہا کہ میرے حلقے کے لوگ مرے ہیں اور آپ نے کہا وہ لوگ شراب پینے سے مرے ہیں جس پر علی زیدی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔
متعلقہ اداروں کی رپورٹس کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ نیوی کے متعلقہ ادارے کی جانب سے کی گئی تحقیقات کی رپورٹ تاحال نہیں مل سکی اور جلد مل جائے گی۔
قائمہ کمیٹی کے اراکین نے حکومت کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کردیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن کھیئل داس کوہستانی نے کہا کہ یہ کون سی راکٹ سائنس ہے جو تاحال حکومت سراغ نہیں لگا سکی، ہم انتظار میں تھے کہ آج تمام حقائق سے آگاہ کیا جائے گا۔
کیماڑی میں زہریلی گیس کا معاملہ
کراچی کے علاقے کیماڑی میں گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر زہریلی گیس کے اخراج کے باعث 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں درجنوں مظاہرین اور علاقہ مکینوں نے کیماڑی کی جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کیا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان اموات پر جواب دیں جو پراسرار گیس کے باعث ہوئیں۔
مزید پڑھیں:کراچی میں 'زہریلی' گیس کا مسئلہ، شہریوں کا احتجاج، حکومت سے جواب طلب
دوسری جانب جامعہ کراچی کے ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بیالوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) نے حاصل کردہ نمونوں کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایک وجہ سویابین ڈسٹ ہے اور اس کے لیے اینٹی الرجک ادویات استعمال کرنی چاہیئں۔
اس ضمن میں سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے) کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل نے بتایا کہ ہمیں شبہ ہے کہ گیس کا اخراج تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ سے ہوا ہے۔
دوسری جانب عالمی ماحولیاتی لیبارٹری (جی ای ایل) کے حکام کے مطابق فضائی معیار کی جانچ میں دو مضر صحت گیسز کی موجودگی کا انکشاف ہوا، 'جنہیں فضا میں نہیں ہونا چاہیے' تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیماڑی میں واقع ضیاالدین ہسپتال کے قریب پیر کی رات تمام آلودگیوں، خصوصاً مضر صحت ہائیڈروجن سلفائیڈ اور نائٹرک آکسائڈ گیسوں کی سطح بہت زیادہ پائی گئی'۔
تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آسکی کہ اس گیس کا اخراج کہا سے ہوا تھا۔
قائمہ کمیٹی میں کورونا وائرس پر بحث
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کورونا وائرس کے پیش نظر گوادر پورٹ نے چین گئے ہوئے تمام لوگوں کی واپسی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے
بلوچستان سے رکن اسمبلی اسلم بھوتانی نے سیکریٹری بحری امور سے سوال کیا کہ گوادر کی بندرگاہ پر جہاز چین سے آتے ہیں اور حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے وہاں کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔
سیکریٹری بحری امور کا کہنا تھا کہ وزارت صحت نے گوادر میں اپنے عملے کو تعینات کر دیا ہے اور ضرورت کی تمام چیزیں بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں بھی اس حوالے سے گوادر میں انتظامات کر رہی ہیں۔
چیئرمین گوادر پورٹ نے کہا کہ بعض چینی شہری نئے سال کی چھٹیوں کے دوران چین گئے تھے اور اب ان چینی شہریوں کو واپس آنے نہیں دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے چین گئے ہوئے لوگ واپس نہیں آئیں گے تو وائرس بھی نہیں آئے گا اور ہم نے واضح کردیا ہے کہ فی الحال چین سے لوگ واپس نہیں آئیں گے۔
سیکریٹری بحری امور کا کہنا تھا کہ چین سے جو جہاز پاکستان آئے گا اس کا عملہ بھی نیچے نہیں اترے گا۔
اس موقع پر کراچی سے منتخب حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی شکور شاد کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس ایران تک پہنچ چکا ہے اور ایران سے غیر قانونی طور پر لوگ بلوچستان آتے ہیں۔