• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

بھارت میں موجود امریکی صدر کا پاکستان سے بہتر تعلقات کا اظہار اہم ہے، وزیرخارجہ

شائع February 25, 2020
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں — تصویر: فیس بک
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں — تصویر: فیس بک

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیان کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام آباد سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرکٹ اسٹیڈیم میں ہندو توا نظریے کے حامل بہت بڑے مجمع کے سامنے یہ بیان دیا کہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں‘۔

خیال رہے کہ بھارت کے دورے کے موقع پر امریکی صدر نے ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد میں کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقدہ 'نمستے ٹرمپ' نامی تقریب سے خطاب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے ساتھ 'بہت اچھے تعلقات' ہیں، امریکی صدر کا بھارت میں خطاب

اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے مثبت انداز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں، جس کا سہرا ان کوششوں کو جاتا ہے، ہم پاکستان کے ساتھ بڑی پیش رفت کے آثار دکھنا شروع ہوگئے ہیں اور ہم کشیدگی میں کمی، وسیع استحکام اور جنوبی ایشیا کی تمام اقوام کے لیے بہتر مستقبل کے لیے پُرامید ہیں'۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت دہشت گردوں کو روکنے اور ان کے نظریے سے لڑنے کے لیے پرعزم ہیں، اسی وجہ سے جب سے دفتر سنبھالا ہے میری انتظامیہ پاکستانی سرحد سے آپریٹ ہونے والی دہشت گرد تنظیموں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کے ساتھ بہت مثبت انداز میں کام کر رہی ہے'۔

امریکی صدر کے مذکورہ بیان پر اپنے رد عمل میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یاد دہانی کروائی کہ جب ہم حکومت میں آئے تھے اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے اور اس تناؤ کی وجہ سے ساؤتھ ایشیا اسٹریٹیجی کا اعلان ہو چکا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر نے پاکستان کیلئے فوجی تربیتی پروگرام بحالی کی توثیق کردی

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان کو ایک مسئلہ سمجھا جا رہا تھا لیکن آج جو خوشگوار تبدیلی آئی ہے اس پر میں پوری قوم، افواج پاکستان اور سیاسی قیادت کو مبارکباد دیتا ہوں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بآور کروایا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امن کا شراکت دار ہے اور پاکستان نے دہشت گردی کو شکست دینے میں جو پیش رفت کی ہے وہ دنیا میں ایک مثال ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے بھی پاکستان کا کردار سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان جس کو بھارت ایک مسئلہ کہتا تھا آج دنیا اس کو ایک حل کے طور پر دیکھ رہی ہے اور خطے میں پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے، شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں اور انہوں نے بھارت سے تقاضہ کیا ہے کہ وہ اس خطے میں مثبت کردار ادا کرے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ امن و استحکام کے فروغ کے لیے ہاتھ بڑھائے اور یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب دیرینہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکلے گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیر کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور بھارت کی موجودہ حکومت نے اس پیچیدہ مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے 5 اگست کے اقدامات نے کشمیر کے تشخص کو متاثر کر کے اس کو 2 حصوں میں تقسیم کر دیا جبکہ 206 روز گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ہے تو ان حالات میں بات کیسے آگے بڑھے گی۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر کی ایک بار پھر 'مسئلہ کشمیر' کے حل میں کردار ادا کرنے کی پیشکش

وزیر خارجہ کے مطابق امریکی صدر نے متنازع شہریت قانون کی وجہ سے بھارت میں جاری خلفشار کا عملی مظاہرہ خود دیکھ لیا ہے کہ اس وقت دہلی کی صورت حال کیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ دورہ بھارت میں مسئلہ کشمیر پر ضرور بات کریں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر پر تشویش ہے اور وہ سمجھتے ہیں دو ایٹمی قوتیں آمنے سامنے ہیں لہٰذ اگر بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو امن کا خلل پوری دنیا کو متاثر کر سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں ماہرین نے تجزیہ پیش کیا تھا کہ اگر دونوں ملکوں میں چپقلش ہوتی ہے تو اس کے اثرات دنیا پر کیا ہوں گے اس لیے ان چیزوں کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو اپنے رویے اور پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024