اٹارنی جنرل کے عہدہ سنبھالنے سے قبل حکومت، لا آفیسرز کے تقرر کیلئے کوشاں
اسلام آباد: نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے عہدہ سنبھالنے سے قبل ملک کے مختلف شہروں میں ڈپٹی اٹارنی جنرلز (ڈی اے جیز) اور اسٹینڈنگ کونسل کی خالی آسامیاں پُر کرنے کی کوششیں انتہائی تیز کردی گئی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں وکلا نے محکمہ قانون پہنچ کر فوری طور پر اپنی سی وی جمع کروائی تاکہ ان میں سے جو موزوں امیدوار ہوں انہیں خالی آسامیوں پر تعینات کیا جاسکے۔
عمومی طور پر حکومت یہ تعیناتیاں اٹارنی جنرل کی مشاورت سے کرتی ہے جو اعلیٰ عدلیہ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔
ملک کے مختلف شہروں میں ڈپٹی اٹارنی جنرلز اور اسٹینڈنگ کونسل کی متعدد آسامیاں خالی ہیں مثلاً کراچی میں 2 اور پشاور میں ایک اور کچھ آسامیاں لاہور اور کوئٹہ میں ہیں، یہ لا آفیسرز صوبائی ہائی کورٹس میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خالد جاوید خان نئے اٹارنی جنرل تعینات
اس ضمن میں ایک سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ ’بہتر ہوتا کہ اگر یہ آسامیاں اٹارنی جنرل کی مشاورت سے پُر کی جاتیں کیوں کہ یہ حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں اپنے ماتحت کام کرنے والے افسران پر مکمل اعتماد ہونا اور ان کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہونے چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اقدام وکلا برادری کو پُرکشش آسامیوں کی پیش کش کر کے انہیں تابع کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ یہ اقدام سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے جسٹس قاضی فائر عیسٰی کیس میں سپریم کورٹ کے ججز کے سامنے متنازع ریمارکس دینے پر پاکستان بار کونسل کے اپنائے گئے مؤقف کے تناظر میں مزید اہم بن گیا ہے۔
قبل ازیں پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین عابد ساقی نے سخت الفاظ پر مبنی بیان میں وزیراعظم عمران خان سے وزیر قانون تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سابق اٹارنی جنرل نے اپنے بیان پر سپریم کورٹ سے 'غیر مشروط' معافی مانگ لی
اس اقدام سے بھی اٹارنی جنرل اور محکمہ قانون کے درمیان تلخی اور بداعتمادی پیدا ہوگی بالخصوص اس وقت کے نئے اٹارنی جنرل ایک پیشہ ور اور بغیر کسی خوف کے آزادانہ کام کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔
نئے اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت میں آج (بروز پیر) پیش ہوں گے باوجود اس کے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن نے عدالت میں 3 ہفتوں کے التوا کی درخواست دائر کررکھی ہے۔
دوسری جانب سابق اٹارنی جنرل انور منصور اپنے متنازع ریمارکس پر 18 جنوری کو سپریم کورٹ سے معافی مانگ چکے ہیں اور توقع ہے کہ وہ بھی سماعت میں پیش ہوں گے۔
اس بات کا امکان ہے کہ سماعت میں پیش ہو کر وہ اپنے متنازع ریمارکس کی وجوہات بیان کریں جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے شواہد یا تحریری معافی طلب کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں بیان: انور منصور اور فروغ نسیم کے ایک دوسرے پر الزامات
تاہم جب وفاقی حکومت نے انور منصور کے بیان سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی اور کہا تھا کہ انور منصور سے استعفیٰ مانگا گیا تھا جبکہ سابق اٹارنی جنرل متعدد میڈیا پروگرامز میں سے دعویٰ کرچکے ہیں کہ وفاقی حکومت ان ریمارکس سے آگاہ تھی۔
خیال رہے کہ اٹارنی جنرل کا عہدہ انتہائی اہم اور حساس ہے اور جب تک اٹارنی جنرل اپنے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کے ساتھ مطمئن نہ ہو اٹارنی جنرل کو اپنی زمہ داریاں نبھانا مشکل ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعیناتی صدر کا دائرہ اختیار ہے لیکن جس شخص کو تعینات کیا جاتا ہے وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔