• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

دورہ بھارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ پاک-بھارت کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیں گے

شائع February 23, 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو دو روزہ دورے پر بھارت پہنچیں گے — فائل فوٹو: اے پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو دو روزہ دورے پر بھارت پہنچیں گے — فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے 2 روزہ دورے کے دوران بھارت اور پاکستان سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر قیام امن جبکہ کشیدگی کو بڑھانے والے اقدامات یا بیانات سے گریز کرنے پر زور دیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر آئندہ کچھ روز میں دو روزہ دورے پر بھارت پہنچیں گے جس سے دونوں ممالک کو شراکت داری و معاشی تعلقات مزید بڑھنے کی امید ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے امریکی صدر کے دورے کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے دورے کے دوران بھارتی رہنماؤں سے زیر بحث آنے والے امور اور منصوبوں کے حوالے سے بتایا۔

مسئلہ کشمیر پر دوبارہ ثالثی کی پیشکش سے متعلق کیے جانے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ڈونلڈ ٹرمپ سے جو آپ سنیں گے وہ حوصلہ افزا ہوگا، بھارت اور پاکستان میں کشیدگی میں کمی، دونوں ممالک کے باہمی مذاکرات میں شمولیت تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ کامیاب مذاکرات کی بنیاد پاکستان کی اپنی حدود میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن کو برقرار رکھنا ہے اور ہمیں اس کی امید بھی ہے'۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کے بھارتی دورے پر کچی آبادی کے رہائشیوں کو بے دخلی کا نوٹس

انہوں نے کہا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ امریکی صدر دونوں ممالک کو لائن آف کنٹرول پر قیام امن کی کوششوں کے لیے زور دیں گے اور ایسے اقدامات یا بیانات جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو، سے گریز کرنے کا کہیں گے'۔

ان سے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا کے بعد بھارتی فوج کے ذریعے افغانستان میں امن برقرار رکھنے سے متعلق سوال کیا گیا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس میں صرف بھارت کی حوصلہ افزائی کریں گے کیونکہ خطے کے تمام ممالک کو اس امن مرحلے کی حمایت میں جو ہوسکے کرنا چاہیے تاکہ یہ کامیاب ہو اور ہم 19 سالہ جنگ کا خاتمہ کرسکیں'۔

انہوں نے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں تشدد کم کرنے کے لیے معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے اور 'ہم یہ آگے کی جانب اہم قدم سمجھتے ہیں اور ہماری پوری توجہ اسی پر ہے'۔

حکام کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو معاہدے پر دستخط سے امید ہے کہ امریکا کی افغانستان میں فوجی مداخلت ختم ہوجائے گی اور امریکا فوجی انخلا کے بعد افغانستان سے سفارتی و معاشی مصروفیات جاری رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس امن مرحلے کی حمایت کے لیے بھارت کی جانب دیکھتے ہیں جو خطے کا اہم ملک ہے اور خطے میں استحکام کے لیے بھی اہم ہے اور مجھے لگتا ہے اگر یہ بات ہوئی تو امریکی صدر کی بھی یہی درخواست ہوگی'۔

بھارت کی کشمیر کے مسئلے پر تیسرے فریق کی ثالثی کو مسترد کرنے کے بیان پر امریکی حکام نے 'کشمیر' کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا تاہم لائن آف کنٹرول کی صورتحال کا حوالہ دینے کا تعلق پاک-بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع ہی تھا۔

نئی دہلی کی طرح پاکستان پر الزامات لگانے کی جگہ حکام نے واضح کیا کہ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک 'لائن آف کنٹرول پر امن و استحکام لانے کے ذمہ دار ہیں اور خطے میں کشیدگی میں اضافہ کرنے والے بیانات و اقدامات سے گریز کرنا چاہیے'۔

یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی بھارت میں تقسیم کے ذمہ دار ہیں، امریکی جریدہ

ان کے اس بیان سے واضح تھا کہ انہوں نے بھارتی سینئر فوجی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان پر الزام لگانے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوجی کارروائی کرنے کی دھمکی کا ہی حوالہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی بات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امریکی صدر ان امور کو اجاگر کریں گے جن میں بالخصوص مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے جو انتظامیہ کے لیے نہایت اہم ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ امریکی صدر ان امور پر نریندر مودی سے بات کریں گے اور بتائیں گے کہ دنیا بھارت میں جمہوری روایات اور اقلیتوں کے لیے احترام کی جانب دیکھ رہی ہے'۔

واضح رہے کہ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ملک میں موجود 18 کروڑ مسلمانوں کے خلاف ہونے کے تاثر کو مسترد کرتی آئی ہے اور ان کے انکار کے باوجود ترکی اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بھارت کے کشمیر کے انضمام کے فیصلے اور مسلمانوں کے خلاف نئے شہریت قانون پر تنقید کی جارہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024