وفاقی کابینہ چین میں پھنسے طلبہ سے متعلق فیصلہ کرے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ وفاقی کابینہ چین میں پھنسے طلبہ سے متعلق فیصلہ کرے۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چین میں پھنسے طلبہ کی واپسی سے متعلق درخواست پر سماعت کی، اس دوران وزارت صحت، خارجہ اور حکومت کے نمائندے پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران حکومتی نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ چین میں تمام طلبہ سے رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے واٹس ایپ اور وی چیٹ گروپ بنے ہیں۔
اس پر عدالت عالیہ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ والدین کے خدشات جائز ہیں، خدشات اس وقت زیادہ بڑھ گئے جب دیگر ممالک اپنے طلبہ کو واپس لے گئے۔
مزید پڑھیں: چین میں مہلک کورونا وائرس کے وار سے اب تک 2 ہزار 3 سو 45 افراد ہلاک
جس پر درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ صفدر نے بتایا کہ بیٹے سے ویڈیو کال پر بات ہوئی تو اس کے چہرے پر دانے نکلے ہوئے تھے، پوچھنے پر بیٹے نے بتایا کہ ہمیں وہاں پینے کو پانی تک نہیں مل رہا۔
وکیل نے کہا کہ بچوں کو کم از کم ووہان سے تو نکالیں اور چین کے کسی اور صوبے میں بھیج دیں۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی پہلی پالیسی یہی ہونی چاہیے کہ طلبہ کو واپس پاکستان لائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو صاف یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ طلبہ کو واپس پاکستان نہیں لائیں گے، کیا کابینہ میں یہ معاملہ زیرِ غور آیا یا نہیں؟
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ ہم یہ اندازہ بھی نہیں لگاسکتے کہ بچے اور ان کے والدین کس کرب سے گزر رہے ہیں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کو چین میں پھنسے طلبہ سے متعلق فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے ہدایت دی کہ کابینہ کے اگلے اجلاس میں یہ معاملہ زیرِ غور لایا جائے اور اس حوالے سے پالیسی فیصلہ کیا جائے۔
ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ متاثرہ بچوں کے والدین کی نمائندگی بھی تحریری صورت میں کابینہ کے سامنے یقینی بنائی جائے اور تحریری صورت میں والدین کے مطالبات کابینہ کے سامنے رکھے جائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ متاثرہ والدین کو مطمئن کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، وفاقی کابینہ جو بھی فیصلہ کرے اس سے 28 فروری کو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی طلبہ کی واپسی: والدین کی سہولت کیلئے فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم
بعدازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ چین میں مہلک کورونا وائرس کے وار سے اب تک 2 ہزار 3 سو 45 افراد ہلاک جبکہ 76 ہزار کے قریب اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔
اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چین کے صوبے ہوبے کے شہروں کا لاک ڈاؤن کرتے ہوئے ملک سے زمینی و فضائی روابط منقطع کردیے گئے تھے جبکہ لاکھوں افراد کی نقل و حرکت بھی روک دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو چین سے نکالنے کے لیے اقدامات کیے تھے تاہم پاکستان نے وہاں سے پاکستانیوں کو واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم گزشتہ دنوں حکومت پر پڑنے والے دباؤ کے باعث معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا کہ اس حوالے سے تمام آپشنز زیر غور ہیں اور جلد فیصلہ کرلیا جائے گا۔
کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔
کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: چین سے شہریوں کی واپسی کے لیے تمام آپشنز زیر غور ہیں، ظفر مرزا
ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔
ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔