• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی بھارتی لڑکی کو ’غداری‘ کیس کا سامنا

شائع February 21, 2020 اپ ڈیٹ February 22, 2020
بھارتی لڑکی نے اسدالدین اویسی کے سامنے نعرے لگائے تھے — فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا
بھارتی لڑکی نے اسدالدین اویسی کے سامنے نعرے لگائے تھے — فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا

بھارتی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں متنازع شہریت قانون پاس کیا تھا جس کے بعد سے ہندوستان بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔

متنازع شہریت قانون کے مطابق 31 دسمبر 2014 سے قبل پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ’ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی‘ مذاہب کے پیروکاروں کو شہریت دی جا سکے گی تاہم اس بل کے تحت تینوں ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔

بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف ملک میں ہر گزرتے دن مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے اور ان مظاہروں میں اب ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب کے افراد بھی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہے۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت اور پولیس مظاہرین پر جرمانے عائد کرنے سمیت انہیں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے کیسز میں جیل بھی بھیج رہی ہے۔

اور گزشتہ روز متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے ایک جلسے میں بھارت کے خلاف نعرے بازی کرنے اور ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی بھارتی لڑکی کو جیل بھیج دیا گیا۔

بھارتی خبر رساں ادارے ’ایشین نیوز انٹرنیشنل‘ (اے این آئی) کے مطابق 20 فروری کو ریاست کرناٹکا کے دارالحکومت بنگلورو میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے ایک جلسے میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی غیر مسلم لڑکی کو ’غداری‘ کے کیس میں جیل بھیج دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق امولیا لیونا نامی نوجوان لڑکی نے بنگلورو میں ہونے والے جلسے کے دوران مائیک پر سب کے سامنے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے بلند کیے تھے۔

لڑکی کی جانب سے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکی نے عین اس وقت پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے جب جلسے سے خطاب کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی جا رہے تھے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکی کی جانب سے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے جانے کے بعد اسدالدین اویسی واپس پیچھے مڑکر لڑکی کو ایسے نعرے لگانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی لڑکی کو جلسہ گاہ کی اسٹیج پر موجود دیگر افراد بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم وہ مسلسل ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے جا رہی ہے۔

اے این آئی کے مطابق لڑکی کی جانب سے دشمن ملک کی حمایت میں نعرے لگائے جانے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف ’غداری‘ کا مقدمہ دائر کیا اور انہیں عدالت میں پیش کردیا، جہاں عدالت نے انہیں 2 ہفتوں کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

پولیس کمشنر نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ لڑکی کے خلاف غداری کے کیس کے تحت قانونی کارروائی کی جا رہی ہے جب کہ ابتدائی تفتیش میں اسد الدین اویسی اس معاملے میں ملوث نظر نہیں آتے۔

کرناٹکا کے وزیر داخلہ بسوراج بومی نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی لڑکی کا تعلق علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیم ’نیکسلاٹ‘ سے ہے جنہیں نکسل باغی بھی کہا جاتا ہے۔

انہوں نے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی لڑکی کو اب کسی صورت میں بھی ضمانت پر رہا نہیں کیا جائے گا جب کہ ان کے خلاف نکسل سے تعلقات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی لڑکی کے والد نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان کی بیٹی متنازع شہریت قانون کے خلاف متحرک تھیں اور وہ انہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے تاہم وہ ان کی بات نہیں مانتی تھی۔

ادھر اسدالدین اویسی نے بھی لڑکی کی جانب سے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے جانے کی مذمت کی اور کہا کہ ’ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘۔

اسدالدین اویسی نے وضاحت کی کہ وہ جلسے کے بعد نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ لڑکی نے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے، جنہیں سننے کے بعد وہ واپس مڑے اور لڑکی کو روکنے کی کوشش کی۔

واضح رہے کہ متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 سے بھارت میں مظاہرے جاری ہیں اور ان مظاہروں میں اگرچہ مظاہرین بھارتی حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔

یاد رہے کہ متنازع شہریت قانون کے مطابق 31 دسمبر 2014 سے قبل پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ’ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی‘ مذاہب کے پیروکاروں کو شہریت دی جا سکے گی۔

تاہم اس بل کے تحت تینوں ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی اور اس تفریق کے خلاف ہی بھارتی عوام حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔

بل کے خلاف دسمبر 2019 سے مظاہرے جاری ہیں—فوٹو: اے پی
بل کے خلاف دسمبر 2019 سے مظاہرے جاری ہیں—فوٹو: اے پی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024