• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

کرپشن کیسز کے '100 ملزمان' نیب آرڈیننس کے تحت ریلیف کے خواہشمند

شائع February 20, 2020
آرڈیننس صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد گزشتہ برس 27 دسمبر کو نافذ کیا گیا تھا — فائل فوٹو: فیس بک
آرڈیننس صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد گزشتہ برس 27 دسمبر کو نافذ کیا گیا تھا — فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کے تحت بدعنوانی کے کیسز میں ریلیف مانگنے والے ملزمان کی تعداد 2 ماہ سے کم عرصے میں 100 تک تجاوز کر گئی۔

ایک سرکاری دستاویز میں انکشاف ہوا کہ سابق بیوروکریٹس اور اہم سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس آرڈیننس کے تحت اپنے کیسز ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔

خیال رہے کہ نیب (دوسری ترمیم) آرڈیننس 2019 صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد گزشتہ برس 27 دسمبر سے نافذ کیا گیا تھا تاکہ بیوروکریسی اور تاجر برادری کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد ملزمان کی ریلیف کی درخواستیں

نیب دستاویز کے مطابق اب تک صرف 3 افراد عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جن کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے انہیں بری کردیا گیا۔

جو افراد بدعنوانی کے الزامات سے بری ہوئے ان میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سمٹ بینک کے سابق صدر بلال شیخ اور پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر رسول خان محسود شامل ہیں۔

ریلیف کے لیے درخواست دینے والے نمایاں اشخاص میں سابق وفاقی وزیر شوکت ترین، سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن، سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی، نیب راولپنڈی کے سابق ڈائریکٹر جنرل کرنل (ر) صبح صادق، سکندر حیات میکن، اعجاز ہارون، لیاقت علی جتوئی، خورشید انور بھنڈر، فخر زمان اور طاہر بشارت چیمہ شامل ہیں۔

دستاویز میں منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم عبدالغنی مجید اور ان کی اہلیہ مناہل مجید کا نام بھی اس کیس سے بریت کی درخواست کرنے والوں میں درج ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے نیب آرڈیننس کا سہارا لے رہے ہیں، رہبر کمیٹی

یہ گمان ہے کہ اگر عبدالغنی مجید اور ان کی اہلیہ مناہل مجید عدالت سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کیس میں نامزد چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ، موجودہ صوبائی وزیر انور سیال اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سمیت 170 افراد بھی عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

نیب کی فہرست کے مطابق جن افراد نے نئے آرڈیننس کے تحت اپنے کیسز چیلنج کیے ان میں ایم حسین، ایم عمار ادریس، غلام مرتضیٰ ملک، وزیر علی بایو، ایم رضی عباس، ایم سلیم عارف، اقبال علی شاہ، ایم رفیق بٹ، جاوید نذیر، نعیم خان، شفیق زمان، اسد محمود، این اے زبیری، چوہدری رشید احمد، ایم حسین سید، متانت علی، آفتاب احمد، انور عباسی، ایم اسلم، راحیل بشیر، عثمان بشیر، طارق حسن گیلانی، عبدالمجید علوی، کامران سعید، راجہ ایم اسحٰق، ایم سہیل اسحٰق، ایم سلیمان، مظہر حسین، ہمایوں فیض رسول شامل ہیں۔

فہرست کے مطابق ریلیف مانگنے والوں میں کرنل (ر) وکیل خان آفریدی، عبدالشفیق جاوید فیروز، شاہد فیروز، خالد فیروز، رضوان فیروز، سلطان آفرین، شمس العارفین، قدیر باٹلے، ایم علی جاوید، ایم مسعود رضا، عبدالسلام شیخ، عاصم رضا، امان اللہ، شبنم افتخار، محمد سلیم، شمائلہ محمود، مسعود چشتی، حسن علی میمن، رسول بخش پھلپوٹو، ریاض احمد، عابد سعید اور غلام شبیر شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس زیر التوا کیسز پر لاگو نہیں ہوتا، پروسیکیوٹر

اس ضمن میں اسپیشل انیشی ایٹو ڈپارٹمنٹ سندھ کے سابق ڈائریکٹر حسن علی میمن نے 8 جنوری کو بریت کی درخواست دائر کی تھی۔

دوسری جانب نندی پور پاور پلاٹ ریفرنس میں نامزد ملزمان شمائلہ محمود اور مسعود چشتی نے 8 جنوری کو بریت کی درخواست دائر کی تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانونی مشیر ڈاکٹر بابر اعوان بری ہوچکے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی پاور پلانٹ کے قیام میں تاخیر سے متعلق اس ریفرنس میں ملزم نامزد ہیں۔

علاوہ ازیں سابق پولیس چیف غلام شبیر نے 3 جنوری کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے ریفرنس میں احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی جبکہ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی (پی ایچ اے) فاؤنڈیشن رسول بخش پھلپوٹو، ریاض احمد اور عابدید سعید نے 7 جنوری کو عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کے تحت ریلیف کی درخواستوں نے انسداد بدعنوانی کے ادارے میں بے چینی پیدا کردی ہے جس کی قانونی ٹیم نے ان کے اقدام کے خلاف مستقبل کی کارروائیوں کی تیاری شروع کردی تھی۔


یہ خبر 20 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024